اٹارنی جنرل کا حقوق کے نفاذ کیلئے عدلیہ کے اختیارات ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 01 مئ 2021
چیف جسٹس گلزار احمد فل کورٹ ریفرنس کی صدارت کر رہے تھے — فوٹو: آئی این پی
چیف جسٹس گلزار احمد فل کورٹ ریفرنس کی صدارت کر رہے تھے — فوٹو: آئی این پی

اسلام آباد: اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے سپریم کورٹ کو حاصل اختیارات کے استعمال کے لیے ایک مقصدی میکانزم تیار کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے جی پی نے تسلیم کیا کہ 'یہ اختیار عدالت عظمیٰ نے بہت احتیاط کے ساتھ اور انتہائی ضرورت کے تحت استعمال کیا ہے' تاہم انہوں نے تجویز پیش کی کہ اب وقت آگیا ہے کہ عدالت عظمیٰ چند رہنما اصول اور طریقہ کار پر غور و فکر کرے۔

اے جی پی نے مشاہدہ کیا کہ اس طرح کے رہنما اصول سے اس کے ضرورت سے زیادہ استعمال کو روکنے میں مدد ملے گی جس کا نتیجہ ہمارے دائرہ اختیار کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے لیے بھی فائدہ مند نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں: ‘ازخود نوٹس کے اختیارات کے دائرہ کار کا جائزہ لیا جائے‘

خالد جاوید خان عدالت کے کمرہ نمبر ایک میں ریٹائر ہونے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس منظور احمد ملک کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس منظور ملک کے علاوہ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین خوشدل خان نے بھی اس ریفرنس سے خطاب کیا۔

ماضی میں بھی عوامی مفادات کی قانونی چارہ جوئی سے نمٹنے کے لیے عدلیہ کے قواعد و ضوابط وضع کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا جاچکا ہے جہاں بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کی ایک بڑی تعداد نے کیس مینجمنٹ کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

یہاں تک کہ پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے 2017 میں ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں ایک ایسے قانون کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا تھا جس کے تحت آرٹیکل 184 (3) کے تحت اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے منظور شدہ فیصلوں کو چیلنج کرنے کی گنجائش ہو۔

پی بی سی کی قانونی اصلاحات کمیٹی نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں وزارت قانون کو قانون میں ترمیم پر غور کرنے کا کہا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس آصف سعید کھوسہ: 'عدالتی فیصلوں' سے 'حکومت کی آئینی اصلاح' تک

پی بی سی کی قرارداد میں آرٹیکل 184 (3) کے تحت عدلیہ کی جانب سے طے شدہ مقدمات میں کم از کم ایک حق اپیل کی قانونی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا تھا، تاکہ آئین کے آرٹیکل 10 'اے' کے تحت شفاف ٹرائل کو یقینی بنایا جاسکے۔

اے جی پی نے فل کورٹ ریفرنس میں اپنے خطاب میں کہا کہ عدلیہ کو درپیش سب سے اہم مسئلہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی طویل فہرست ہے کیونکہ اس سے قانونی چارہ جوئی کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'اس کا فوری طور پر مرکوز اور پائیدار جواب دینے کی ضرورت ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں تنوع کا فقدان ہے، 'زیادہ سے زیادہ خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے اراکین کو اعلیٰ عدلیہ میں شامل کیا جانا چاہیے کیونکہ ان کی عدم موجودگی سے ادارے کے کام اور وقار پر اثر پڑتا ہے'۔

جسٹس منظور ملک کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے یاد کیا کہ حال ہی میں ایک کیس میں فریقین نے ایک دوسرے پر چلانے کی کوشش کی تو جسٹس منظور ملک اپنے اعصاب کو قابو میں رکھنے میں کامیاب ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جسٹس منظور ملک نے تحمل سے کام لیا اور ان کی تحمل مزاجی کمرہ عدالت کے باہر دور دور تک محسوس کی گئی'۔

مزید پڑھیں: پاکستان بار کونسل کا سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے دائرہ کار کے تعین کا مطالبہ

اے جی پی نے کہا کہ یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ جہاں ہمیں تحمل مزاجی کی ضرورت ہے ہم وہیں ایک ایسے فرد کو کھو رہے ہیں جس نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔

تاہم اٹارنی جنرل نے کہا کہ انفرادی اہمیت رہے گی تاہم یہ سفر جاری رہنا چاہیے اور عدلیہ کی آزادی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین عدالتیں اور دیگر ادارے تشکیل دیتا ہے اور ان کو اختیارات دیتا ہے تاہم کسی بھی آئین نے کبھی کسی ادارے کو اخلاقی اختیار نہیں دیا ہے۔

اے جی پی نے کہا کہ اخلاقی اختیار آئین سے نہیں بلکہ لوگوں کا اعتماد جیتنے سے حاصل ہوتا ہے، ادارے خدمت کے لیے ہی ہوتے ہیں۔

خالد جاوید نے کہا کہ عدالت عظمٰی کی اصل قوت قوم کا اس کی آزادی پر اعتماد ہے اور 'اور دیگر توانائی کے وسائل کی طرح، اس کو بھی مستقل تجدید اور دوبارہ ایندھن فراہم کرنے کی ضرورت ہے'۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جسٹس منظور ملک کی انصاف کے حصول، بالخصوص فوجداری مقدمات کے لیے انتھک شراکت نے قانون کے پیشہ ور افراد کے لیے ایک مثال قائم کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'جسٹس منظور ملک کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا'۔

جسٹس منظور ملک نے اپنی تقریر میں کہا کہ کرمنل جسٹس سسٹم میں مجرموں کے دکھ اور مصائب کو دور کرنے کے لیے سخت تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو اپنی سزا کا ایک بڑا حصہ اکثر اپیلوں کے خاتمے کے انتظار میں گزار دیتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں