گھوٹکی کے قریب مسافر ٹرینوں میں تصادم، 51 افراد جاں بحق، 100 زخمی

گھوٹکی حادثے میں 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے—فوٹو: رائٹرز
گھوٹکی حادثے میں 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے—فوٹو: رائٹرز
ٹرینوں کے حادثے کے بعد متعدد مسافر ٹرینوں کی آمد و رفت تعطل کا شکار ہے — فوٹو: اے پی
ٹرینوں کے حادثے کے بعد متعدد مسافر ٹرینوں کی آمد و رفت تعطل کا شکار ہے — فوٹو: اے پی

سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ڈہرکی کے قریب دو مسافر ٹرینوں کے تصادم کے نتیجے میں 51 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔

گھوٹکی کے ایس ایس پی عمر طفیل نے کہا کہ مزید 11 لاشیں نکالنے کے بعد جاں بحق افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے خواتین اور بچوں سمیت 34 جاں بحق افراد کی فہرست بھی جاری کی جن کی شناخت ہوچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جاں بحق افراد کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ ہمیں ریلوے کے چند پولیس اہلکاروں کی تلاش ہے جو لاپتہ ہیں'۔

پاکستان ریلوے کے ترجمان کے مطابق حادثہ رات ساڑھے تین بجے اس وقت پیش آیا جب سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس ٹرین کی 10 سے زائد بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں اور مخالف سمت سے (لاہور سے کراچی جانے والی) سرسید ایکسپریس ان بوگیوں سے ٹکرا گئی۔

مزید پڑھیں: رواں سال کے دوران ٹرین حادثات میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی، پاکستان ریلوے

حکام پہلے ہی زخمیوں اور اموات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرچکے تھے تاہم اب حادثے میں زخمیوں کی تعداد 50 سے بڑھ کر 100 ہوگئی ہے۔

ترجمان پاکستان ریلوے نے تصدیق کی کہ کراچی سے سرگودھا آنے والی ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹڑی سے اتر کر ڈاؤن ٹریک پر جاگریں اور راولپنڈی سے آنے والی سرسید ایکسپریس ان بوگیوں سے ٹکرا گئی۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان ریلوے کے مطابق ملت ایکسپریس ٹرین رات 3 بجکر 28 منٹ پر ڈہرکی اسٹیشن سے روانہ ہوئی تھی اور 3 بجکر 43 منٹ پر اطلاع ملی کہ ٹرین 3 بجکر 38 منٹ پر پٹری سے اتر گئی‘۔

محکمہ ریلوے کی پریس ریلیز کے مطابق اسی اثنا میں سر سید ایکسپریس ٹرین 3 بجکر 38 منٹ پر رائٹی سے گزری۔

انہوں نے کہا کہ ڈاؤن ٹریک پر موجود بوگیوں کو دیکھ کر ڈرائیور نے ایمرجنسی بریک لگانے کی کوشش کی لیکن 3 بجکر 38 منٹ پر سرسید ایکسپریس ٹرین بوگیوں سے ٹکرا گئی۔

علاوہ ازیں ترجمان پاکستان ریلوے نے بتایا کہ روہڑی سے ریلیف ٹرین جائے حادثہ کی طرف روانہ کردی گئی ہے، اس کے علاوہ ریلوے انتظامیہ اور مقامی پولیس سمیت ضلعی انتظامیہ ریلیف کے لیے موقع پر موجود ہے۔

اس سے قبل گھوٹکی کے ڈپٹی کمشنر عثمان عبد اللہ نے واقعے میں 30 افراد جاں بحق اور 50 زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔

علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ حکام کو شہریوں کو بچانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ بوگیاں الٹ گئیں۔

مزید پڑھیں: تیزگام حادثے میں ریلوے انتظامیہ کی غفلت شامل تھی، انکوائری رپورٹ

انہوں نے مزید کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ ایک بوگی میں 30 سے 35 مسافر پھنسے ہوئے ہیں۔

---فوٹو:ڈان نیوز
---فوٹو:ڈان نیوز

ڈپٹی کمشنر عثمان عبداللہ نے بتایا کہ معلومات کی بروقت فراہمی کے لیے انفارمیشن ڈیسک قائم کردی گئی ہے جبکہ ریلیف کیمپ لگادیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک مشکل کام ہے، اب بھی پھنسے ہوئے مسافروں کو نکالنے کے لیے بھاری مشینری کا استعمال کرنے میں وقت لگے گا۔

عثمان عبداللہ نے کہا کہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر طبی عملے بشمول تمام ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو طلب کرلیا گیا ہے۔

ایس ایس پی گھوٹکی عمر طفیل نے بتایا کہ واقعے میں معمولی زخمی ہونے والے افراد کو ابتدائی طبی امداد کے بعد ہسپتال سے روانہ کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ایک بوگی میں اب بھی مسافر پھنسے ہوئے ہیں اور ہمیں ہلاکتیں بڑھنے کا خدشہ ہے‘۔

علاوہ ازیں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ریلوے سکھر طارق لطیف کے مطابق حادثے میں 13 سے زائد بوگیوں کو نقصان پہنچا، جن میں 9 بوگیاں ملت ایکسپریس اور 4 بوگیاں سرسید ایکسپریس کی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ریلوے نے حادثات کی روک تھام کیلئے لاہور ڈویژن کے 924 مقامات پر باڑ لگادی

انہوں نے بتایا کہ گری ہوئی بوگیوں میں پھنسے زخمیوں اور لاشوں کو نکالنے کا کام جاری ہے جبکہ روہڑی سے ریلیف ٹرین بھی جائے حادثہ پر پہنچ گئی ہے۔

---فوٹو: ڈان نیوز
---فوٹو: ڈان نیوز

زخمیوں سے متعلق ترجمان پاکستان ریلوے نے بتایا کہ زخمیوں کو تعلقہ ہسپتال روہڑی، پنوعاقل اور سول ہسپتال سکھر منتقل کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سرسید ایکسپریس کی باقی بوگیوں کو مسافروں کے ساتھ صادق آباد ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ کر دیا گیا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ٹریک بحال ہوتے ہی ٹرینوں کو منزل مقصود کی طرف روانہ کر دیا جائے گا۔

انکوائری سے حادثے کی وجوہات کا تعین ہوگا، چیف ایگزیکٹو افسر ریلوے

پاکستان ریلوے کے کے چیف ایگزیکٹو افسر نثار میمن نے کہا سانحہ کی تحقیقات سے حادثے کی وجوات کا تعین معلوم گا۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ سکھر ڈویژن میں ریلوے کی پٹری کمزور ہیں۔

نثار میمن نے مزید کہا کہ پاکستان ریلوے نے مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اسے مقامات پر رفتار کی حد مقرر کی ہے۔

انہوں نے ڈان کو فون پر بتایا کہ ’جہاں حادثہ پیش آیا ہے وہاں ٹریک کا ٹریک کمزور نہیں ہے‘۔

چیف ایگزیکٹو افسر نے کہا کہ جب رفتار سے متعلق پابندیاں ہوتی ہیں تو ٹرین ڈرائیور 40 کلومیٹر فی گھنٹہ ، 60 کلومیٹر فی گھنٹہ اور 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار برقرار رکھتا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ شام کے 6 بجے تک ایک پٹری آمد ورفت کے لیے کھول دی جائے گی کیونکہ امدادی کام تاحال جاری ہیں۔

انکوائری 24 گھنٹے کے اندر مکمل کرنے کی ہدایت

ترجمان پاکستان ریلوے کے مطابق گھوٹکی حادثے پر وفاقی وزیر ریلوے محمد اعظم خان سواتی نے نوٹس لے لیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وفاقی وزیر نے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پر مشتمل انکوائری 24 گھنٹے کے اندر مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

---فوٹو: اے پی
---فوٹو: اے پی

دوسری جانب ڈپٹی کمشنر گھوٹکی عثمان اللہ نے امدادی سرگرمیوں سے متعلق بتایا کہ ریسکیو آپریشن آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور دیگر بوگیوں سے ریسکیو آپریشن مکمل کرلیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کٹرز کی مدد سے بوگیوں کو کاٹ کر زخمیوں اور نعشوں کو نکالا جا رہا ہے۔

ڈی سی گھوٹکی نے بتایا کہ 63 زخمیوں کو ریسکیو کیا جا چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ متاثرہ بوگیوں کی ریسکیو آپریشن کی تکمیل میں مزید 2 گھنٹے لگ سکتے ہیں۔

ٹرینوں کی آمد و رفت متاثر

حادثے کے بعد متعدد مسافر ٹرینوں کی آمد و رفت تعطل کا شکار ہے۔

---فوٹو:رائٹرز
---فوٹو:رائٹرز

ریلوے حکام نے بتایا کہ پشاور جانے والی خیبر میل کو رانی پور، لاہور جانے والی گرین لائن کو گمبٹ ریلوے اسٹیشن، زکریا ایکسپریس کو گھوٹکی اور سرسید ایکسپریس کو پنوعاقل میں روک لیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ فرید اور شاہ حسین ایکسپریس روہڑی ریلوے اسٹیشن پر موجود ہیں جبکہ رحمٰن ایکسپریس کو رحیم یار خان اور لاہور جانے والی شاہ حسین ایکسپریس کو ڈیرہ نواب صاحب میں روک لیا گیا۔

ان کے مطابق کراچی جانے والی عوامی ایکسپریس لیاقت پور ریلوے اسٹیشن پر موجود ہے۔

ہنگامی سرگرمیاں

فوج اور رینجرز کے دستے بھی مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر امدادی اور بچاؤ آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

پاک فوج کے تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پنوں عاقل سے ایمبولینسوں کے ساتھ ملٹری ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس حادثے کے مقام پر پہنچ گئے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق فوج کی انجینئر ٹیم اربن سرچ اینڈ ریسکیو (یو ایس اے آر) کو ضروری وسائل اور امدادی سامان کے ساتھ ہیلی کاپٹر کے ذریعے جائے حادثہ پر پہنچایا گیا تاکہ امدادی سرگرمیاں مزید تیز کی جا سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ زخمیوں اور جاں بحق ہونے والے افراد کو ملبے سے نکالنے اور فوری امدادی اقدامات کے لیے ملتان سے 2 ہیلی کاپٹر روانہ کیے جارہے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق امدادی سامان تیار کیا جارہا ہے اور جلد ہی روانہ کردیا جائے گا۔

وزیر اعظم کا اظہار افسوس

وزیر اعظم عمران خان نے ڈہرکی کے قریب مسافر ٹرینوں کے حادثے میں 30 مسافروں کی اموات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا۔

انہوں نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وزیر ریلوے کو جائے حادثہ پر پہنچنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’زخمیوں کی طبی امداد کو یقینی بنائیں اور جاں بحق افراد کے لواحقین کی امداد کریں‘۔

عمران خان نے کہا کہ ’وزارت ریلوے کو سیفٹی کی خرابیوں کی جامع تحقیقات کا حکم دیا ہے‘۔

علاوہ ازیں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کمشنر سکھر سمیت متعلقہ حکام کو ریلوے انتظامیہ سے مکمل تعاون کی ہدایت کردی۔

انہوں نے حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے جسد خاکی آبائی علاقے بھیجنے کی بھی ہدایت کی۔

مراد علی شاہ نے متعلقہ انتظامیہ کو مسافروں کے لیے عارضی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کوئی انفارمیشن کا سسٹم بنایا جائے تاکہ مسافروں کی رشتہ داروں کو صحیح معلومات مل سکے۔

وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ اس نااہل دور حکومت میں ٹرینوں کے حادثے معمول بن گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹرین حادثوں پر استعفے کے مثالیں دینے والے وزیر اعظم عمران خان کو اپنی نااہل و نالائق کابینہ سمیت فوری استعفی دے دینا چاہیے۔

سعید غنی نے کہا کہ اس طرح کی سنگین لاپرواہی پر مکمل جامع و شفاف انکوائری ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جب سے یہ نااہل حکومت عوام پر مسلط کی گئی ہے ہر ادارہ تباہ ہوگیا ہے۔

حالہ برسوں میں متعدد حادثات

خیال رہے کہ چند روز قبل ہی محکمہ ریلوے کی جانب سے جاری کردہ 5 ماہ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ گزشتہ 2 برس کے مقابلے میں ٹرین حادثات میں نمایاں کمی آئی ہے۔

محکمہ ریلوے نے کہا تھا کہ موجودہ اعداد و شمار کا موازنہ اگر گزشتہ 2 برس کے دوران رونما ہونے والے واقعات سے کیا جائے تو رواں سال کے پہلے 5 مہینوں میں ٹرین حادثات میں کمی آئی ہے۔

حالیہ چند برس میں رونما ہونے والے واقعات پر نظر ڈالیں تو 31 اکتوبر 2019 کو کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام ایکسپریس میں ضلع رحیم یار خان کے قریب گیس سلنڈر پھٹنے سے کم از کم 65 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

جولائی 2019 میں ہی صادق آباد میں ولہار اسٹیشن پر اکبر ایکسپریس اور مال گاڑی آپس میں ٹکرا گئیں تھیں، جس کے نتیجے میں 23 افراد جاں بحق اور 85 زخمی ہوگئے تھے۔

اس حادثے کی بھی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا اعلان کیا گیا تھا اور اس وقت وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا تھا کہ 'حادثہ بظاہر انسانی غفلت کا نتیجہ لگتا ہے، غفلت برتنے والوں کومعاف نہیں کریں گے'۔

قبل ازیں 20 جون 2019 کو صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد میں جناح ایکسپریس ٹریک پر کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی تھی۔

ٹرین اور مال گاڑی کی اس ٹکر کے نتیجے میں ڈرائیور، اسسٹنٹ ڈرائیور اور گارڈ جاں بحق ہوگئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں