نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

اپ ڈیٹ 05 اگست 2021
ایڈیشنل سیشن جج شیخ محمد سہیل نے محفوظ شدہ مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ضمانت کی درخواستیں خارج کیں — فائل فوٹو / چینج ڈاٹ او آر جی
ایڈیشنل سیشن جج شیخ محمد سہیل نے محفوظ شدہ مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ضمانت کی درخواستیں خارج کیں — فائل فوٹو / چینج ڈاٹ او آر جی

نور مقدم قتل کیس میں سیشن کورٹ نے ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی کی ضمانت کی درخواستیں خارج کر دیں۔

ایڈیشنل سیشن جج شیخ محمد سہیل نے محفوظ شدہ مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ضمانت کی درخواستیں خارج کیں۔

بعد ازاں 5 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ملزمان اپنے بیٹے کو نور مقدم کو قتل کرنے میں سہولت کار بنے اور ان کے خلاف صلاح مشورہ کرنے اور جرم چھپانے کی دفعات شامل کی گئیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم ذاکر جعفر نے پولیس کو آگاہ کرنے کے بجائے ری ہیبلی ٹیشن سینٹر کے عملے کو جائے وقوع پر بھیجا، ملزمان نے ناقابل ضمانت جرم کا ارتکاب کیا اس لیے ان کی درخواست ضمانت خارج کی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

ایڈیشنل سیشن جج شیخ محمد سہیل نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد ملزم کے والدین کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

واضح رہے کہ ملزم ظاہر جعفر کے والد اور والدہ نے ضمانت پر رہائی کے لیے 27 جولائی کو سیشن کورٹ میں درخواست جمع کرائی تھی۔

عدالت نے درخواست ضمانت پر پولیس اور نور مقدم کے والد کو 30 جولائی کا نوٹس جاری کیا تھا اور کیس کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کر لیا تھا۔

یاد رہے کہ 25 جولائی کو اسلام آباد پولیس نے نور مقدم کے قتل کے ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کر لیا تھا۔

ترجمان اسلام آباد پولیس نے بیان میں کہا تھا کہ مدعی مقدمہ و مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم کے تفصیلی بیان کی روشنی میں ملزم کے والد ذاکر جعفر، والدہ عصمت آدم جی، گھریلو ملازمین افتخار اور جمیل سمیت متعدد افراد کو شامل تفتیش کرلیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس کے علاوہ ان تمام افراد کو بھی شامل تفتیش کیا جارہا ہے جن کا اس قتل کے ساتھ بطور گواہ یا کسی اور حیثیت میں کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان تمام افراد اور اس قتل سے جڑے تمام بالواسطہ یا بلاواسطہ تمام محرکات کے شواہد اکٹھے کیے جارہے ہیں۔

پولیس نے عدالت سے ملزم ظاہر جعفر کے والدین کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔

اسلام آباد کی عدالت نے 27 جولائی کو مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے گرفتار والدین سمیت 4 ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: 'نئی تفصیلات، کردار' سامنے آنے کے بعد ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں ایک بار پھر توسیع

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج اس مقدمے کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحٰی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھا جبکہ ان کی اہلیہ اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں اور جب وہ دونوں شام کو گھر لوٹے تو انہیں اپنی بیٹی نور مقدم کو گھر سے غائب پایا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مذکورہ لڑکی کا موبائل فون نمبر بند پایا اور اس کی تلاش شروع کی، کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کر کے بتایا کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں اور ایک یا دو دن میں واپس آ جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل: مشتبہ ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں دو دن کی توسیع

شکایت کنندہ نے بتایا کہ اسے بعد میں ملزم کی کال موصول ہوئی جس کے اہل خانہ سابق سفارت کار کے جاننے والے تھے، جس میں ملزم نے شوکت مقدم کو بتایا کہ نور مقدم اس کے ساتھ نہیں ہے۔

20 جولائی کی رات تقریباً 10 بجے متاثرہ کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کردیا گیا ہے۔

اپنی بیٹی کی لاش کی شناخت کرنے والے شوکت مقدم نے اپنی بیٹی کے مبینہ قتل کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں