چین کا افغانستان کی نئی حکومت سے روابط برقرار رکھنے کا عزم

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2021
چین افغانستان کی  خودمختاری  اور سالمیت کی قدر کرتا ہے —فائل فوٹو: رائٹرز
چین افغانستان کی خودمختاری اور سالمیت کی قدر کرتا ہے —فائل فوٹو: رائٹرز

چین نے افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ طالبان کی نئی حکومت کے رہنماؤں سے روابط برقرار رکھنے کو تیار ہے اور ساتھ ہی طالبان سے ملک میں امن و امان بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق بیجنگ میں روز مرہ کی بریفنگ کے دوران وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن سے سوال پوچھا گیا کہ کیا چین افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرے گا جن کے ناموں کا اعلان گزشتہ روز کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ملا حسن اخوند وزیراعظم اور ملا عبدالغنی ان کے نائب ہوں گے، طالبان کا عبوری حکومت کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ چین عبوری حکومت کے قیام کے طالبان کے اعلان کو بہت اہمیت دیتا ہے، اس کے ساتھ ہی تین ہفتوں سے ملک میں جاری انارکی کا خاتمہ ہو گیا ہے اور یہ ملک میں امن و امان کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے انتہائی اہم قدم ہے۔

انہوں نے تبصرہ کیا کہ طالبان نے نئی حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر اپنی تنظیم کے اعلیٰ عہدیداروں کو رکھا ہے جس میں گروپ کے بانی وزیر اعظم ہیں اور امریکا کی دہشت گردی کی فہرست میں مطلوب رہنما وزیر داخلہ ہیں۔

وانگ وینبن نے کہا کہ چین، افغانستان کی خودمختاری اور سالمیت کی قدر کرتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمیں اُمید ہے کہ افغان حکام ہر نسل اور گروہ کے لوگوں کو غور سے سنیں گے تاکہ اپنے لوگوں کی خواہشات اور بین الاقوامی برداری کی توقعات پر پورا اتر سکیں۔

جہاں ابھی دنیا طالبان کی نئی حکومت کے اقدامات کی منتظر ہے وہیں چین کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں نئی طالبان حکومت کے ساتھ روابط قائم کرنے کے لیے تیار ہے اور اسے ملک کی تعمیر نو کے لیے انتہائی اہم قدم قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: چین، طالبان کے ساتھ معاہدے کرنے کی کوشش کرے گا، جوبائیڈن

ترجمان نے کہا کہ چین، افغانستان کے اندرونی معاملات اور امور میں مداخلت نہیں کرے گا لیکن امید ہے کہ طالبان معتدل اور مستحکم ملکی اور خارجہ پالیسی اپنائے گے، ہر طرح کی دہشت گرد قوتوں کا قلع قمع کریں گے اور تمام ممالک خصوصاً پڑوسیوں سے اچھے روابط رکھیں گے۔

طالبان اور چین کے تعلقات

اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد چین نے افغانستان میں جامع حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا اور انہوں نے افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونئنگ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ طالبان نے بارہا چین کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی کے لیے چین کی شراکت داری کے منتظر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں، چین افغانستان کے شہریوں کے انفرادی طور پر اپنے مستقبل کے انتخاب کے حق کی قدر کرتا ہے۔

بعدازاں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ چین نے افغانستان میں مفاہمت اور امن کے فروغ کے لیے ایک تعمیری کردار ادا کیا ہے اور ملک کی تعمیر میں ان کا تعاون خوش آئند ہے۔

سہیل شاہین نے غیر ملکی ٹیلی ویژن 'سی جی ٹی این' پر انٹرویو کے دوران کہا کہ چین عظیم معیشت اور صلاحیت رکھنے والا ایک بڑا ملک ہے، میرا خیال ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو، بحالی اور ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:طالبان حقیقت پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، قطر

یاد رہے کہ حال ہی میں طالبان کے ترجمان نے میڈیا پر کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کو پاک چین اقتصادی راہداری میں شامل کیا جائے۔

اس سے قبل طالبان نے چین کو اپنا سب سے اہم شراکت دار قرار دیتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ افغانستان کی تعمیر نو اور اس کے تانبے کے بھرپور ذخائر سے فائدہ اٹھانے کے لیے بیجنگ کی طرف دیکھ رہا ہے کیونکہ جنگ زدہ ملک کو وسیع پیمانے پر غربت اور معاشی تباہی کے خدشات کا سامنا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں