مغربی ممالک کی افغانستان کیلئے ’انتظار کرو، دیکھو‘ کی پالیسی تباہی لائے گی، معید یوسف

اپ ڈیٹ 16 ستمبر 2021
انہوں نے خبردار کیا کہ افغانستان کو تنہا چھوڑنے کے نتائج بھیانک ہوں گے— فائل فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے خبردار کیا کہ افغانستان کو تنہا چھوڑنے کے نتائج بھیانک ہوں گے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق دنیا کی ویٹ اینڈ واچ (انتظار کرو اور دیکھو) پر مبنی پالیسی کو ناقص حکمت عملی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا رویہ جنگ زدہ ملک کو مزید معاشی تباہی کی جانب دھکیل دے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک میڈیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ ’انتظار کرو اور دیکھو کا مطلب تباہی ہے‘۔

مزید پڑھیں: پاکستان، امریکا کو آگے بڑھنا چاہیے اور افغانستان میں مل کر کام کرنا چاہیے، معید یوسف

انہوں نے باور کرایا کہ مغربی ممالک نے 1990 کی دہائی میں وہی غلطی کی جس کے نتائج معاشی تباہی، خانہ جنگی اور بین الاقوامی دہشت گردی کی صورت میں ہمارے سامنے آئے۔

قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ اب مغربی رہنماؤں نے غلطی تسلیم کرلی ہے اور اسے دوبارہ نہ کرنے کا عہد کیا ہے۔

رواں ماہ کے شروع میں طالبان نے 15 اگست کو کابل پر قبضہ کرنے کے بعد عبوری حکومت کا اعلان کیا تھا۔

تاہم عالمی برادری افغانستان میں نئی انتظامیہ سے تعلقات استوار کرنے میں تذبذب کا شکار ہے۔

قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا کہ انسانی امداد محض ایک عارضی اور جزوقتی انتظام ہے جو گورننس، ادارہ جاتی اور اقتصادی تعاون کے برابر نہیں جو حقیقی معنوں میں افغانستان کو درپیش مشکلات سے نکلنے کے لیے درکار ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا کے ساتھ بات چیت میں لفظ 'بیس' کا ذکر تک نہیں ہے، معید یوسف

واضح رہے کہ پاکستان موجودہ بحران میں طالبان حکومت کا سب سے زیادہ حامی رہا ہے، اس نے نہ صرف امدادی سامان افغانستان بھیجا بلکہ طالبان کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کیے جانے کی بھی وکالت کی۔

قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ پاکستان کے پاس طالبان حکومت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اتنے وسائل ہیں اور نہ ہی وہ اسے بذات خود قانونی حیثیت دے سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مغربی ممالک کو ایسا کرنا چاہیے۔

معید یوسف نے بتایا کہ مغرب حال ہی میں طالبان کے ساتھ مختلف مراحل میں مصروف رہا، ان کی مصروفیات کے نتیجے میں دوحہ معاہدہ ہوا اور افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد غیر ملکی شہریوں کو افغانستان سے نکالنے میں مدد ملی۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری طالبان کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے خدشات پر بات کرنے کو اپنا قومی مفاد سمجھتی ہے، انہیں اپنے خدشات پر براہ راست طالبان سے بات کرنی چاہیے جس میں انسانی حقوق، جامع حکومت یا دیگر مسائل بھی زیر بحث آنے چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پنج شیر میں پاکستان کے طالبان کو مدد فراہم کرنے کے الزامات مضحکہ خیز ہیں'

معید یوسف نے کہا کہ اگر دنیا اس گفتگو میں دلچسپی رکھتی ہے تو اسے نئی حکومت (طالبان کی حکومت) کے ساتھ براہ راست ہونے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ افغانستان کو تنہا چھوڑنے کے نتائج بھیانک ہوں گے اور ملک ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر عالمی برادری نے کابل سے تعلقات ترک کیے تو افغانستان میں ایک سیکیورٹی خلا پیدا ہو جائے گا، آپ پہلے ہی جانتے ہیں کہ دہشت گرد تنظیم 'داعش' وہاں پہلے سے موجود ہے، پاکستانی طالبان اور القاعدہ بھی وہاں ہے، ہم سیکیورٹی خلا کو کیوں خطرے میں ڈالتے ہیں؟

تبصرے (0) بند ہیں