ٹی ایل پی کے احتجاجی شرکا وزیرآباد میں قیادت کی ہدایت کے منتظر

اپ ڈیٹ 30 اکتوبر 2021
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز
گزشتہ روز گوجرانوالہ سے وزیر آباد پہنچنے والے کارکنان نے ظفر علی خان بائی پاس پر رات گزاری—فوٹو: ڈان نیوز
گزشتہ روز گوجرانوالہ سے وزیر آباد پہنچنے والے کارکنان نے ظفر علی خان بائی پاس پر رات گزاری—فوٹو: ڈان نیوز

کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاجی شرکا اپنی قیادت سے ملنے والی ہدایت کے منتظر ہیں جبکہ انہوں نے وزیر آباد میں دوسرے روز بھی اپنا دھرنا جاری رکھا۔

گزشتہ روز گجرانوالہ سے وزیر آباد پہنچنے والے کارکنان نے ظفر علی خان بائی پاس پر رات گزاری۔

مزیدپڑھیں: پیمرا نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کردی

اس دوران شہر میں ٹریفک اور انٹرنیٹ سروس معطل رہی جبکہ کاروبار بھی بند رہا۔

اس سے قبل ایک سینئر اہلکار نے بتایا تھا کہ ٹی ایل پی اور پولیس کے مابین جھڑپ دو بڑے سیکیورٹی پوائنٹس پر متوقع تھا جو کہ دریائے چناب اور جہلم پر قائم کیے گئے تھے جو اسلام آباد تک مارچ کا واحد راستہ تھا۔

جمعہ کو چناب ٹول پلازہ پر مارچ کرنے والوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سیکڑوں رینجرز اور پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی نظر بندی کالعدم قرار دے دی

پولیس ذرائع کے مطابق سیکیورٹی اہلکاروں کے پاس بکتر بند گاڑیاں بھی ہیں، چناب ٹول پلازہ سے تقریباً 500 میٹر کے فاصلے پر پنجاب رینجرز نے ایک 'ریڈ لائن' مقرر کردی ہے اور قریب ہی ایک نوٹس لگا کر مظاہرین کو خبردار کیا کہ وہ لائن کی خلاف ورزی نہ کریں ورنہ سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔

مذاکرات کے لیے 12 رکنی کمیٹی بنادی گئی ہے، نورالحق قادری

وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے علماکے وفد کے ہمرا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفد کو وزیراعظم نے کہا ہم نے ہمیشہ سے بامعنی اور سنجیدہ مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا کہ آپ کی ہر وہ بات اور تجویز جس سے ملک میں بڑی خون ریزی اور تصادم سے بچا جاسکے، اس کا احترام کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ 12 رکنی کمیٹی بنادی گئی ہے جو حکومت اور تحریک لبیک کی قیادت کے ساتھ بھی رابطے میں ہے، ان کے پہلے بھی روابط تھے اور ان کو مزید آگے بڑھائیں گے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ ایسی شخصیات کی آمد کی وجہ سے بہتری کی فضا بن جائے گی۔

وفد کے رکن حامد رضا نے ایک سوال پرکہا کہ مختلف مقامات پر مذاکرات چل رہے ہیں اور اس کے لیے موقع دیں، اگر ان تفصیل میں جائیں گے تو خدشہ ہے کہ ان مذاکرات میں کوئی خلل آجائے۔

ان کا کہنا تھا کہ مثبت نتائج آئیں گے اور حکومت نے یقین دلایا ہے کہ کوئی تشدد نہیں ہوگا۔

ٹی ایل پی کے مارچ کو ایک مقام تک محدود کرنے کے احکامات سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت وہاں حکومتی مشینری کام کر رہی ہے اور ایسے میں اگر مظاہرین آگے بڑھتے ہیں تو مذاکرات کے سبوتاژ ہونے کے خطرات ہیں، اس لیے اتنا انتظار کیا ہے تو مزید انتظار کریں۔

ٹرین آپریشن متاثر

ٹی ایل پی کی ریلی کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظرپاکستان ریلوے نے اعلان کیا کہ کراچی اور راولپنڈی کے درمیان چلنے والی دو ٹرینیں تیزگام ایکسپریس اور پاکستان ایکسپریس آج (ہفتہ) کو ان باؤنڈ اور آؤٹ باؤنڈ دونوں سروسز کے لیے معطل رہیں گی۔

اس کے علاوہ لاہور سے گزرنے والی کئی دیگر ٹرینیں بھی معطل رہیں گی۔

ان میں پشاور اور کوئٹہ کے درمیان جعفر ایکسپریس، پشاور اور کراچی کے درمیان خیبر میل اور لاہور اور راولپنڈی کے درمیان گرین لائن شامل ہیں۔

پاکستان ریلوے کے ترجمان نے کہا کہ دیگر تمام ٹرینیں اپنے شیڈول اور روٹ کے مطابق چلیں گی۔

آپ بزور طاقت ریاست سے باتیں نہیں منوا سکتے، فواد چوہدری

گزشتہ روز اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ٹی ایل پی کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آپ بزور طاقت ریاست سے باتیں نہیں منوا سکتے جبکہ مذاکرات آئین اور قانون کے تحت ہوں گے۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کا مارچ جاری، رینجرز نے وزیر آباد کے قریب ’ریڈ لائن‘ لگادی

علاوہ ازیں اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ٹی ایل پی کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ٹی ایل پی کو مزید قانون شکنی پر کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔

اجلاس سے متعلق جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اجلاس میں ٹی ایل پی کے احتجاج کے دوران جان و مال کو نقصان پہنچانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور کمیٹی نے عزم ظاہر کیا کہ قانون کی عمل داری میں خلل ڈالنے کی مزید کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔

سعد رضوی کے ساتھ لانگ مارچ ختم کرنے کیلئے مذاکرات جاری ہیں، شیخ رشید

اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا تھا کہ کالعدم تنظیم تحریک لیبک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوئے ہیں اور زیر حراست تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کے ساتھ لانگ مارچ ختم کرنے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ حکومت، ٹی ایل پی کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر قائم ہے لیکن ٹی ایل پی نے تاحال سڑکوں کو عام ٹریفک کے لیے بحال کیا اور نہ ہی جی ٹی روڈ چھوڑ کر مرکز واپس گئے ہیں جس کے بعد معمولات زندگی بری طرح متاثر ہیں۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کا احتجاج جاری، وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا

خیال رہے کہ ٹی ایل پی اور پولیس کے مابین شدید جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب ٹی ایل پی نے فرانسیسی سفیر کی بے دخلی اور سفارتخانہ بند کرنے کے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے اسلام آباد کی جانب مارچ دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی۔

کالعدم تحریک لبیک پاکستان نے لاہور میں 3 روز تک دھرنے کے بعد21 اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کارکنوں کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ سے روکا گیا تو ٹی ایل پی نے پلان ’بی‘ بھی تیار کرلیا ہے۔

ٹی ایل پی احتجاج کا پس منظر

گزشتہ برس میں فرانس میں سرکاری سطح پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر مسلم دنیا میں سخت ردعمل آیا تھا خاص طور پر پاکستان میں بھی اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی اور تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا جسے حکومت کے ساتھ 16 نومبر کو معاہدے کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔

تاہم مطالبات کی عدم منظوری پر تحریک لبیک نے 16 فروری کو اسلام آباد میں مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا تھا، بعدازاں مہلت ختم ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے مطالبات کی عدم منظوری اور معاہدے پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر تحریک لبیک نے حکومت کو 20 اپریل کی ڈیڈ لائن دی تھی۔

تاہم 12 اپریل کو سعد رضوی کو امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے لاہور سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

ان کی گرفتاری کے بعد جس پر ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس نے بعد ازاں پر تشدد صورت اختیار کرلی تھی جس کے پیشِ نظر حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔

حافظ سعد حسین رضوی کو ابتدائی طور پر 3 ماہ تک حراست میں رکھا گیا اور پھر 10 جولائی کو دوبارہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایک وفاقی جائزہ بورڈ تشکیل دیا گیا جس میں 23 اکتوبر کو ان کے خلاف حکومتی ریفرنس لایا گیا۔

قبل ازیں یکم اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے سعد رضوی کی نظر بندی کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی تھی تاہم لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ ابھی تک تشکیل نہیں دیا گیا۔

بعد ازاں حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے 12 اکتوبر کو سنگل بینچ کے حکم پر عمل درآمد معطل کردیا تھا اور ڈویژن بینچ کے نئے فیصلے کے لیے کیس کا ریمانڈ دیا تھا۔

تاہم 19 اکتوبر کو عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر نکالے گئے جلوس کو کالعدم جماعت نے اپنے قائد حافظ سعد رضوی کی رہائی کے لیے احتجاجی دھرنے کی شکل دے دی تھی۔

بعدازاں 3 روز تک لاہور میں یتیم خانہ چوک پر مسجد رحمت اللعالمین کے سامنے دھرنا دینے کے بعد ٹی ایل پی نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

مزیدپڑھیں: ٹی ایل پی کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان

21 اکتوبر کو کالعدم تحریک لبیک پاکستان نے لاہور میں 3 روز تک دھرنا دینے کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کارکنوں کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ سے روکا گیا تو ٹی ایل پی نے پلان ’بی‘ بھی تیار کرلیا ہے۔

23 اکتوبر کو لاہور میں کالعدم ٹی ایل پی کے قائدین اور کارکنوں کے پولیس کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

دو روز قبل بھی مریدکے اور سادھوکے کے قریب ٹی ایل پی کے مشتعل کارکنوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم 4 پولیس اہلکار جاں بحق اور 263 زخمی ہوگئے تھے۔

حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے لیکن دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔

حکومت واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ وہ پاکستان میں فرانسیسی سفارت خانے کو بند کرنے کے ٹی ایل پی کے مطالبے کو پورا نہیں کر سکتی، ساتھ ہی انکشاف کیا تھا کہ ملک میں فرانس کا کوئی سفیر نہیں ہے۔

اس کے علاوہ کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ٹی ایل پی کو عسکریت پسند تنظیم قرار دیا جائے گا اور اسے کچل دیا جائے گا جیسا کہ اس طرح کے دیگر گروپس کو ختم کر دیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں