افغانستان میں دو دہائیوں بعد دوبارہ شوبز میں خواتین کو دکھانے پر پابندی

اپ ڈیٹ 22 نومبر 2021
صحافی خواتین کو بھی اسکرین پر آنے سے قبل حجاب پہننے کی ہدایت —فائل فوٹو: Resolute Support Media
صحافی خواتین کو بھی اسکرین پر آنے سے قبل حجاب پہننے کی ہدایت —فائل فوٹو: Resolute Support Media

امریکی انخلا کے بعد اقتدار سنبھالنے والی افغانستان کی طالبان حکومت نے شوبز انڈسٹری میں کام کا مذہبی ضابطہ اخلاق جاری کرتے ہوئے خواتین پر پابندی عائد کردی۔

افغانستان میں رواں برس اگست میں طالبان نے اقتدار سنبھالا تھا اور پہلے دن سے ہی مختلف حلقوں کی جانب سے یہ خدشہ کیا جا رہا تھا کہ طالبان حکومت شوبز سمیت موسیقی، پینٹنگ اور اسی طرح کے دیگر فنون لطیفہ کے شعبوں پر پابندی عائد کرے گی یا پھر ان میں خواتین کے کام پر بندش عائد کی جائے گی۔

اگرچہ گزشتہ 5 ماہ کے دوران طالبان حکومت نے واضح طور پر شوبز، حکومت، تعلیم، صحت اور دیگر شعبہ جات میں خواتین کے کام پر پابندی عائد نہیں کی، تاہم ان کے لیے نئے ضابطہ اخلاق جاری کرتے ہوئے انہیں اسلامی لباس پہننے سمیت دیگر اصولوں پر عمل کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔

تاہم اب حکومت نے شوبز انڈسٹری میں خواتین کو دکھانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ان کے لیے صحافتی شعبے میں کام کرنے کے لیے بھی نئی ہدایات جاری کردیں۔

خبر رساں ادارے ’ایجنسی فرانس پریس‘ (اے ایف پی) کے مطابق افغانستان کی مذہبی اور ثقافتی امور دیکھنے والی وزارت نے 21 نومبر کو 8 نئے ضابطے جاری کرتے ہوئے ڈراموں، فلموں اور تھیٹرز میں خواتین کو دکھانے پر پابندی عائد کردی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزارت کی جانب سے واضح ہدایات جاری کی گئیں کہ اب سے خواتین کو ڈراموں، فلموں اور تھیٹرز میں نہیں دکھایا جائے گا۔

ساتھ ہی وزارت نے ہدایات جاری کیں کہ خواتین صحافت کے شعبوں میں کام کر سکتی ہیں، تاہم جب انہیں ٹی وی پر اپنی کوئی رپورٹ پیش کرنی ہو یا خبریں پڑھنی ہوں تو وہ پہلے حجاب کا اہتمام کرلیں۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کے کنٹرول کے بعد افغان گلوکار و اداکار سبزیاں و پھل بیچنے پر مجبور

وزارت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق اب ملک میں ایسا کوئی غیر ملکی فلم یا ڈراما بھی نشر نہیں کیا جائے گا، جس میں دوسرے ملک یا خطے کی ثقافت کو فروغ دیا جا رہا ہو۔

جاری کی گئی ہدایات کے مطابق ٹی وی چینلز ایسا کوئی مزاحیہ پروگرام بھی نشر نہیں کریں گے، جس میں مذہب اور ثقافت پر مذاق کیا جا رہا ہو۔

ایسے غیر ملکی مواد پر بھی پابندی لگادی گئی ہے جس میں مذہب اسلام کی عظیم شخصیات یا مذہب کے حوالے سے ناپسندیدہ بات کی گئی ہو۔

وزارت نے نئی ہدایات کو حکومتی رولز قرار نہیں دیا بلکہ انہیں مذہبی تجاویز کا نام دیا ہے۔

طالبان کے کنٹرول کے بعد شوبز سے وابستہ کئی افراد مکینک بننے پر مجبور ہوگئے—فائل فوٹو: اناطولو
طالبان کے کنٹرول کے بعد شوبز سے وابستہ کئی افراد مکینک بننے پر مجبور ہوگئے—فائل فوٹو: اناطولو

افغان طالبان کی جانب سے جاری کردہ نئی تجاویز پر سوشل میڈیا پر تنقید کی جا رہی ہے جب کہ افغان شوبز، تھیٹر، فلم، ٹی وی و صحافت سے وابستہ شخصیات نئی ہدایات کو انڈسٹری کی موت قرار دے رہی ہیں۔

افغانستان میں دو دہائیوں کے بعد ڈراموں، فلموں اور تھیٹرز میں خواتین پر پابندی عائد کی گئی ہے، اس سے قبل طالبان کی ماضی کی حکومت میں بھی خواتین کے شوبز میں کام کرنے پر پابندی عائد تھی۔

مزید پڑھیں: طالبان کے کریک ڈاؤن کا خوف، 100 سے زائد موسیقار افغانستان چھوڑ گئے

سال 2001 میں امریکی قبضے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں امریکا سمیت مختلف مغربی ممالک نے ٹی وی چینلز اور شوبز انڈسٹری میں بھاری سرمایہ کاری کرکے خواتین کو مواقع فراہم کرنے کے منصوبے شروع کیے تھے۔

امریکی قبضے کے بعد افغان ٹی وی چینلز پر موسیقی و رقص کے امریکی و بھارتی طرز کے شوز بھی نشر کیے جارہے تھے۔

افغان طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد ہی خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ شوبز پر پابندی عائد کریں گے یا پھر اس میں خواتین کے کام پر بندش لگائیں گے، جس کے بعد شوبز انڈسٹری سے وابستہ کئی شخصیات ملک سے فرار ہوگئی تھیں اور جو لوگ وہاں سے نکلنے میں ناکام ہوگئے تھے، انہوں نے مکینک، پھل اور سبزی فروش کے طور پر کام شروع کردیا تھا۔

طالبان کے کنٹرول کے بعد معروف افغان گلوکارہ آریانا سعید کینیڈا منتقل ہوگئی تھیں—فوٹو: انسٹاگرام
طالبان کے کنٹرول کے بعد معروف افغان گلوکارہ آریانا سعید کینیڈا منتقل ہوگئی تھیں—فوٹو: انسٹاگرام

تبصرے (0) بند ہیں