جرمن وزیر صحت کی شہریوں کو جلد از جلد کورونا ویکسین لگوانے کی تنبیہ

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2021
یورپ میں لاک ڈاؤن اور کورونا پابندیوں کے دوربارہ نفاذ پر شہری سراپا احتجاج ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز
یورپ میں لاک ڈاؤن اور کورونا پابندیوں کے دوربارہ نفاذ پر شہری سراپا احتجاج ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز

جرمنی کے شہریوں کو سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ موسم سرما کے اختتام تک کورونا ویکسین لگوائیں ورنہ ان کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے جبکہ یورپ میں کورونا وائرس کی چوتھی لہر کے پیش نظر آسٹریا میں دوبارہ جزوی لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بیلجیئم اور نیدرلینڈز کی جانب سے گزشتہ ہفتے کورونا وائرس کے خلاف اقدامات پر ہونے والی جھڑپوں کی شدید مذمت کی گئی، ان اقدامات کا مقصد براعظم میں کورونا کیسز کے اضافے کو روکنا ہے۔

ڈچ وزیر اعظم مارک روٹے نے 3 راتوں تک جاری رہنے والی بدامنی کو ’بیوقوفوں کی جانب سے تشدد قرار دیا‘ جبکہ ان کے بیلجیئم ہم منصب الیگزینڈر ڈی کرو نے برسلز میں 35 ہزار افراد کے پرتشدد احتجاج کو ’بالکل ناقابل قبول‘ قرار دیا۔

شہریوں کی جانب سے غصے کا مظاہرہ یورپی ممالک میں عالمی وبا سے متعلق دوبارہ اقدامات اٹھانے کے خدشے کے بعد سامنے آیا۔

انہوں نے موسم سرما میں دوبارہ گھروں تک لوگوں کے محدود ہونے، ڈیلٹا ویرینٹ کے بڑھتے ہوئے کیسز اور کچھ ممالک میں سست روی کا شکار ویکسین مہم کو وبا کا دوبارہ مرکز بننے کا ذمہ دار قرار دیا۔

مزید پڑھیں: جرمنی میں لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کرنے والے درجنوں افراد گرفتار

جرمنی کے وزیر صحت جینز اسفاہن کا کہنا تھا کہ ’شاید موسم سرما کے اختتام تک تمام افراد کو ویکسین لگادی جائے گی‘۔

انہوں نے شہریوں پر ویکسین لگوانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ویکسین لگوا کر صحت مند ہوں، بصورت دیگر آپ مر بھی سکتے ہیں‘۔

عہدے سے سبکدوش ہونے والی چانسلر انجیلا میرکل کا کہنا تھا کہ جرمنی میں کورونا سے بچاؤ کے لیے موجودہ روک تھام ناکافی ہے۔

جرمنی میں ویکسین نہ لگوانے والے افراد کو عوامی مقامات پر جانے سے روکا جارہا ہے۔

شرکا نے بتایا کہ انجیلا میرکل نے قدامت پسند سی ڈی یو رہنماؤں کے اجلاس میں کہا کہ ’انتہائی ڈرامائی صورتحال ہے، نئے متعدی مرض سے متاثرین کی تعداد ہر 12 روز میں دوگنی ہو جاتی ہے‘۔

ملک میں انتہائی نگہداشت وارڈز تیزی سے بھرنے کے بعد جرمنی کے متعدد خطوں میں نئے پابندیوں کا حکم دیا گیا ہے جس میں کرسمس مارکیٹیں بند رکھنا بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جرمنی میں 'لائٹ لاک ڈاؤن' لگانے کا عندیہ

اسی نوعیت کی پابندیاں پڑوسی ملک آسٹریا میں بھی نافذ کی گئی ہیں، جہاں پیر سے دوبارہ جزوی لاک ڈاؤن کا نفاذ کرتے ہوئے دکانیں، بازار اور بڑی مارکیٹیں بند کردی گئی ہیں، مغربی یورپ میں کئی ماہ سے سخت پابندیاں دیکھی جارہی ہیں۔

یہاں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر 89 لاکھ افراد کو گھروں سے باہر نکلنے سے روک دیا گیا ہے، شہریوں کو صرف کام سے باہر جانے، ورزش اور اشیائے ضرورت کی خریداری کے لیے گھروں سے باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

پہاڑی ملک میں بھی یکم فروری سے ویکسین کو لازمی قرار دینے پر غور کیا جارہا ہے، اب تک دنیا کے چند ممالک میں اس اقدام کا اعلان کیا گیا ہے، جبکہ آسٹریا کے اسکول اور کنڈرگارٹنز اب بھی کھلے ہوئے ہیں۔

ویانا میں خشک میوہ جات فروخت کرنے والی خاتون انیلیا لیوتن کا کہنا تھا کہ ’اپنے ارد گرد دیکھیں، یہاں کوئی نہیں ہے‘۔

36 سالہ انیلیا کا کہنا تھا کہ ’اب ہر ایک کے لیے حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں اور ہر ایک کے لیے یہ حل ہے کہ ویکسین لگوائیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: 'لاک ڈاؤن سے جرمنی کی معیشت کو بہت زیادہ نقصان نہیں ہوا'

سرحد کے پار سلوواکیا میں ویکسین نہ لگوانے والے افراد کو رکاوٹوں کا سامنا ہے، ایسے افراد کے اسٹورز میں داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

کورونا وائرس کے سخت قوانین کے خلاف یورپ کے مختلف شہروں میں لاکھوں شہریوں نے احتجاج کیا جبکہ کچھ مقامات پر مظاہرین غصے میں آگ بگولا بھی ہوگئے۔

نیدرلینڈز میں روٹرڈیم سے کورونا وائرس کے کرفیو کے خلاف شروع ہونے والا احتجاجی مظاہرہ آہستہ آہستہ ملک بھر میں پھیل گیا، اس دوران کم و بیش 145 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ متعدد پولیس افسران بھی زخمی ہوئے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ برسلز میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا، غیر ویکسین شدہ افراد کو مختلف مقامات یا ریسٹورنٹ اور بار وغیرہ میں داخلے سے روکنے کے خلاف احتجاج میں 35 ہزار افراد نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: جرمنی: جزوی لاک ڈاؤن میں 31 جنوری تک توسیع

ادھر ڈنمارک میں گزشتہ ہفتے کے اختتام پر تقریباً ایک ہزار مظاہرین نے حکومت کے لاک ڈاؤن منصوبے کے خلاف احتجاج کیا۔

دوسری جانب ویانا میں 40 ہزار افراد نے ’آمریت‘ کی مذمت کرتے ہوئے مارچ کیا جبکہ 6 ہزار افراد نے لینز میں احتجاج کیا۔

فرانسیسی ایلیٹ پولیس اور انسداد دہشت گردی کے افسران کووڈ 19 کے اقدامات پر ایک ہفتہ کی بدامنی کے بعد گواڈیلوپ پہنچے، اس دوران لوٹ مار کے واقعات بھی پیش آئے تھے۔

دوسری جانب صدر ایمانوئل میکرون نے فرانسیسی کیریبیئن جزیرے کے شہریوں کو پرسکون رہنے کی درخواست کی ہے۔

ریڈ کراس نے پیر کو ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ وبائی مرض نے ’معاشرتی اقدار‘ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں