میڈیا رپورٹس مسترد، کالعدم ٹی ٹی پی کے اراکین کو رہا نہیں کیا گیا، ذرائع

23 نومبر 2021
کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان نے گرفتار افراد کی رہائی کی رپورٹ مسترد کردی—فائل/فوٹو:رائٹرز
کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان نے گرفتار افراد کی رہائی کی رپورٹ مسترد کردی—فائل/فوٹو:رائٹرز

سیکیورٹی عہدیداروں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے 100 سے زائد ٹی ٹی پی اراکین کو امن معاہدے کے تحت رہا کرنے کی میڈیا رپورٹس مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاحال کوئی رہائی نہیں ہوئی۔

ڈان ڈاٹ کام کو ترجمان ٹی ٹی پی محمد خراسانی نے کہا کہ ‘ٹی ٹی پی کے 100 گرفتار اراکین کی رہائی کے حوالے سےمیڈیا کی رپورٹ درست نہیں ہے تاہم جنگ بندی معاہدے پر پوری طور پر کاربند ہیں’۔

مزید پڑھیں: عارضی جنگ بندی کیلئے حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں مفاہمت

اس سے قبل میڈیا میں رپورٹس آئی تھیں کہ حکومت نے ٹی ٹی پی کے 100 سے زائد گرفتار ارکان کو گروپ کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان کرنے پر خیرسگالی کے طور پر رہا کردیا ہے۔

خراسانی نے ٹی ٹی پی کی جانب سے کئی شرائط حکومت کے سامنے رکھے جانے سے متعلق رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ‘مذاکراتی ٹیم تاحال نہیں ملیں، تو شرائط اور مطالبات کے حوالے سے رپورٹس قبل از وقت ہیں’۔

دوسری جانب سیکیورٹی ذرائع نے بھی کالعدم ٹی ٹی پی کے گرفتار افراد کی رہائی کی رپورٹس کی تردید کی۔

مذاکراتی عمل سے با خبر عہدیدار نے بتایا کہ ‘میں اس بات کی تصدیق کرسکتا ہوں کہ اب تک کسی کو رہا نہیں کیا گیا’۔

اس حوالے سے ایک اور سیکیورٹی عہدیدار نےبتایا کہ ‘تاحال کسی کو رہا نہیں کیا گیا’۔

وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ متعلقہ افراد سے پوچھا ہے اور جلد ہی جواب ملے گا۔

جنگ بندی معاہدہ

وزیراطلاعات فواد چوہدری نے رواں ماہ کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی مکمل جنگ بندی پر آمادہ ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہوگیاہے، فواد چوہدری

ان کا کہنا تھا کہ ‘کالعدم تحریک طالبان سے آئین پاکستان کے تحت مذاکرات ہورہے ہیں، معاہدے کے تحت مکمل جنگ بندی پر آمادگی ہوچکی ہے’۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے اسی روز بیان میں تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ عارضی جنگ بندی ہوئی ہے اور اس کا اطلاق 9 نومبر سے 9 دسمبر تک ہوگا۔

قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ ان کی حکومت ٹی ٹی پی سے مذاکرات کررہی ہے تا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور معافی کے بدلے صلح کر کے عام شہریوں کی طرح زندگی گزار سکیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'ٹی ٹی پی کے چند گروپس ہم سے مصالحت کے لیے بات کرنا چاہتے ہیں اور ہم ان گروپس کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ٹی ٹی پی مختلف گروپس پر مشتمل ہے اور ہم ان میں سے چند کے ساتھ ہتھیار ڈالنے اور مصالحت کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: مفاہمتی عمل کے تحت تحریک طالبان پاکستان سے ہتھیار ڈالنے کے لیے بات کررہے ہیں، عمران خان

دو روز بعد قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے واضح کیا تھا کہ ٹی ٹی پی کو معافی کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور ریاست حساس معاملات پر بالکل واضح ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام ‘لائیو ود عادل شاہزیب’ میں مشیر قومی سلامتی نے کہا تھا کہ حکومت ٹی ٹی پی کے ماضی سے باخبر ہے اور اس وقت مذاکرات ہو رہے ہیں اور دیکھا جائے گا کہ کیا ٹی ٹی پی سنجیدہ ہے۔

افغان طالبان کا کردار

ٹی ٹی پی سے جنگ بندی کے اعلان کے چند روز بعد افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور کہا تھا کہ افغان طالبان حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالث ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان تاحال حتمی طور پر معاہدے نہیں ہوا لیکن ایک ماہ کی جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ اس عمل کا آغاز بہت اچھا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان، ٹی ٹی پی کے درمیان ثالث ہیں لیکن معاہدہ نہیں ہوا، افغان وزیر خارجہ

اس سے قبل ڈان نے رپورٹ کیا تھا کہ افغانستان کی طالبان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور دونوں فریقین کو آمنے سامنے بات چیت کے لیے ایک چھت تلے لے کر آئے ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ’مذاکرات براہِ راست سینیئر افسران اور ٹی ٹی پی کی سینیئر قیادت کے درمیان ہوئے، جس میں ٹی ٹی پی کے تمام گروہ شامل تھے، اس ضمن میں بہت سی تجاویز سامنے رکھی گئیں اور دونوں فریقین قابل عمل حل نکالنے کے لیے کام کررہے ہیں‘۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ ٹی ٹی پی قیادت سے مذاکرات میں فی الوقت کسی قبائلی ثالث سے رابطہ نہیں کیا گیا، انہیں مناسب وقت پر شامل کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں