سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر نہیں رہنا چاہتا، پارٹی قیادت کو استعفیٰ بھیج دیا، یوسف رضا گیلانی

اپ ڈیٹ 31 جنوری 2022
یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ وہ جن کی کوئی کریڈبلٹی نہیں وہ کہہ رہے کہ میں نے حکومت کو سپورٹ کیا — فوٹو: ڈان نیوز
یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ وہ جن کی کوئی کریڈبلٹی نہیں وہ کہہ رہے کہ میں نے حکومت کو سپورٹ کیا — فوٹو: ڈان نیوز

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ وہ ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر نہیں رہنا چاہتے اور انہوں نے اپنا استعفیٰ پارٹی کی قیادت کو بھجوا دیا ہے۔

چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایوان کے گزشتہ اجلاس میں جب اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پر جب دوبارہ رائے شماری ہوئی تو ووٹوں میں ٹائی آگیا اور پاکستان و سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین سینیٹ کو ووٹ دینا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ بطور غیر جانبدرا شخص آپ کو یہ نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ ایوان کے کسٹوڈین کے طور پر آپ کو دونوں جانب کے لوگوں کا تحفظ کرنا پڑتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ دنوں میڈیا پر یہ چلا کہ ہمیں اجلاس کا ایجنڈا معلوم تھا، میں اس کی وضاحت کرچکا ہوں کہ لیکن میں آپ کو یہ بھی پڑھ کر سناتا ہوں کہ 25 جنوری کو یہ بل قومی اسمبلی سے منظور ہوا، 27 جنوری کو جو آپ نے ایجنڈا دیا وہ میرے گھر پر رات ایک بجے پہنچا، جبکہ جو میرے آفس کی طرف سے ارکان کو حاضری یقینی بنانے کا میسج کیا گیا اس میں اسٹیٹ بینک بل کا ذکر نہیں تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں:ایک ووٹ کی اکثریت سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل سینیٹ سے منظور

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ’اتنے اہم ایجنڈے کے لیے کچھ موقع ملنا چاہیے تھا، جو اہم ملکی ایشو ہوں اس پر اعتماد میں لیا جاتا ہے جبکہ بل متعلقہ کمیٹی کے سپرد بھی نہیں کیا گیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ وزرا جو یہاں موجود ہیں وہ کوئی بات کریں تو میرے لیے باعث اعزاز ہے لیکن وہ جن کی کوئی کریڈبلٹی نہیں وہ کہہ رہے کہ میں نے حکومت کو سپورٹ کیا اور میں کہہ رہا ہوں کہ آپ کے ووٹ کی وجہ سے حکومت جیتی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’آخر میں یہ کہوں گا کہ میں پہلے ہی پارٹی قیادت کو اپنا استعفیٰ دے چکا ہوں کہ میں اپوزیشن لیڈر نہیں رہنا چاہتا‘۔

غیر حاضری پر یوسف رضا گیلانی کا شکر گزار ہوں، وسیم شہزاد

قائد ایوان وسیم شہزاد کا ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری کے دن یوسف رضا گیلانی کی غیر حاضری پر میں ان کا شکر گزار ہوں۔

مزید پڑھیں:اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پر حکومت، اپوزیشن کے آمنے سامنے آنے کا امکان

یوسف رضا گیلانی کے بات کا جواب دیتے ہوئے وسیم شہزاد کا کہنا تھا کہ ایوان کا ایجنڈا ضرور جاری کیا جاتا ہے لیکن کونسا ایجنڈا کس وقت ایوان میں پیش جائے گا یہ نہیں بتایا جاتا۔

قائد ایوان کا کہنا تھا کہ ہاؤس کا مکمل ایجنڈا اہم ہوتا ہے، ہمیں ایجنڈے کے معاملے پر پسند، ناپسند کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔

پی ٹی آئی سینیٹر وسیم شہزاد نے کہا کہ اپوزیشن کا رویہ منفی ہے، ان کے مؤقف کی جیت ہو تو سب ٹھیک ورنہ جمہوریت و آئین سب کو غلط قرار دیتے ہوئے اپوزیشن کے رہنما الٹے سیدھے القابات دیتے ہیں۔

انہوں نے قائد حزب اختلاف کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے قانون کے مطابق ہاؤس کو چلانا ہوتا ہے اور قانون کے مطابق ہی اس روز چیئرمین سینیٹ نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔

حکمرانوں نے ملک کی خود مختاری کا سودا کیا ہے، مشتاق احمد

یہ بھی پڑھیں:اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دینے کا بل کابینہ سے منظور

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ کے ذریعے قائد کے اسٹیٹ بینک کو فروخت کردیا، حکومت نے آئی ایم ایف کی جانب سے ڈرافٹ کردہ بل ایوان سے منظور کرایا، جس دن یہ بل منظور کیا گیا وہ دن اس سینیٹ، پارلیمنٹ اور پاکستان کی آزادی کے لیے سیاہ دن تھا۔

انہوں نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور کرانے پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بتاتے ہوئے قانون سازی کو ملک و قوم سے غداری قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ حکمرانوں نے ملک کی خود مختاری کا سودا کیا ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں ترمیمی بل منظور کرکے گورنر اسٹیٹ بینک کو وائسرائے اور آئی ایم ایف کو ایسٹ انڈیا کمپنی بنا دیا گیا ہے اور بالکل اسی طرح جس طرح سلطنت عثمانیہ کا جب مرکزی بینک پر اختیار ختم ہوا تو سلطنت عثمانیہ ختم ہوگئی، اسی طرح اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور ہونے سے پاکستان کی خود مختاری، اس کا نیوکلیئر پروگرام شدید خطرے میں پڑ گیا ہے، بل منظور کرا کے پی ٹی آئی نے ملک سے غداری کی ہے۔

ہم اپوزیشن اور نہ ہی حکومت کا حصہ ہیں، دلاور خان

سینیٹر دلاور خان نے اسٹیٹ بینک بل کی حمایت کرنے سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارے گروپ کی ایک الگ حیثیت ہے، یوسف رضا گیلانی کو ووٹ اس لیے نہیں دیا کہ ہم پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں بلکہ ہم نے قائد حزب اختلاف کے لیے ووٹ اس لیے دیا کیونکہ ہم اعظم نذیر تارڑ کو نہیں جانتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف، حکومت کا اسٹیٹ بینک کو خود مختار بنانے کیلئے لچک کا مظاہرہ

سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ اب یوسف رضا گیلانی ہمیں بتائیں کہ ہم نے ان کی جماعت کے اجلاس میں کبھی شرکت کی ہے؟ ہم نے کبھی اے این پی یا جے یو آئی (ف) کے اجلاس میں شرکت کی؟ ہم اپوزیشن کی کسی جماعت کا حصہ ہیں اور نہ ہی حکومت کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی نے رابطہ کیا اور کہا کہ اجلاس میں شرکت کریں، یوسف رضا گیلانی خود اپنے چیمبر میں نہیں تھے لیکن وزیر خزانہ شوکت ترین نے ملاقات کرکے بل کی حمایت کا کہا، میرے گروپ کے اوپر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں، ہمارے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے، ہمارے خلاف کیوں کارروائی کی جائے؟ کیا میرے پاس سے 15 کلو چرس یا ہیروئن پکڑی گئی ہے کہ میرے خلاف کارروائی کی جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود ایوان بالا میں اسٹیٹ بینک ترمیمی بل صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور ہوگیا تھا، یوں حکومت ضمنی مالیاتی بل سمیت عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جائزے کے لیے درکار دونوں بلز منظور کرانے میں کامیاب رہی۔

سینیٹ میں مذکورہ بل وزیر خزانہ شوکت ترین نے پیش کیا تھا جس کے حق میں 43 جبکہ مخالفت میں 42 ووٹ آئے تھے جس پر چیئرمین سینیٹ نے بل کو منظور قرار دیا تھا۔

خیال رہے کہ سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 57 ہے جبکہ حکومت ارکان کی تعداد 42 ہے، اپوزیشن ارکان میں دلاور خان گروپ کے 6 اراکین شامل ہیں، نزہت صادق کینیڈا میں اور مشاہد حسین سید کورونا سے متاثر ہونے کی وجہ سے اجلاس میں نہیں آسکے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان کے قرض پروگرام پر آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس دوبارہ ملتوی

واضح رہےکہ سینیٹ میں اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پر اپوزیشن کو ایک ووٹ سے شکست ہوئی تھی اور اس دوران ایوان میں یوسف رضا گیلانی کی عدم حاضری پر اپوزیشن کی بعض جماعتوں نے یوسف رضا گیلانی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا جب کہ حکومتی وزرا نے گیلانی کا شکریہ ادا کیا تھا۔

اسٹیٹ بینک ترمیمی بل

اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل 2021 مرکزی بینک کو مکمل خودمختار کرنے کے ساتھ حکومت کے مرکزی بینک سے قرضے کے حصول پر مکمل پابندی عائد کردے گا، تاہم حکومت مارکیٹ ریٹ پر کمرشل بینکوں سے قرض لے سکے گی، جس سے کاروباری اشرافیہ کی ملکیت کے نجی بینکوں کو فائدہ ہوگا۔

تمام بتائی گئیں 54 ترامیم جس میں 10 نئی شقیں بھی شامل ہیں، ایس بی پی ایکٹ 1956 میں متعارف کرائی گئی ہیں، ایس بی پی بل 2021، 3 مارچ 2021 کو کابینہ نے منظور کیا تھا جبکہ اس مہینے کے شروع میں وزیراعظم سیکریٹریٹ کے لا ڈویژن کی سفارشات پر اس پر نظر ثانی کی گئی تھی۔

مجوزہ ترامیم میں ڈومیسٹک پرائس اسٹیبلیٹی کو ایس بی پی کے بنیادی مقصد کے طور پر شامل ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے مرکزی بینک حکومت کی جانب سے طے کردہ میڈیم ٹرم انفلیشن ٹارگٹ کے مطابق کام کرے گا۔

اگرچہ حکومت کے ترقیاتی ایجنڈے کی حمایت کرنے کا بنیادی مقصد ہوگا، خیال کیا جاتا ہے کہ مرکزی بینک اقتصادی ترقی کے لیے حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھے گا جب تک کہ اس کی حمایت، قیمت اور مالی استحکام کے اس کے بنیادی مقصد کو کمزور نہ کرے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں