روسی حملے میں 198 افراد ہلاک، 1000 سے زائد زخمی ہوچکے، یوکرینی وزیر صحت

اپ ڈیٹ 26 فروری 2022
یوکرینی صدر نے انخلاء کی امریکی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ لڑائی کے دوران وہ ملک میں ہی رہیں گے—فوٹو:اے پی
یوکرینی صدر نے انخلاء کی امریکی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ لڑائی کے دوران وہ ملک میں ہی رہیں گے—فوٹو:اے پی

جمعرات کو طلوع آفتاب سے قبل روس کی جانب سے شروع ہونے والی کارروائی میں بڑے پیمانے پر فضائی اور میزائل حملوں اور شمال، مشرق اور جنوب سے یوکرین میں فوجیں داخل ہونے کے بعد سے کل 198 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

یوکرین کے وزیر صحت وکٹر لیاشکو نے فیس بک پر اپنے ایک بیان میں لکھا کہ بدقسمتی سے آپریٹو ڈیٹا کے مطابق حملہ آوروں کے ہاتھوں 3 بچوں سمیت 198 افراد ہلاک، 33 بچوں سمیت ایک ہزار 115 زخمی ہوئے۔

ان کے بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ زخمیوں اور مرنے والوں کی کُل تعداد میں فوجی اور عام شہری دونوں شامل ہیں۔

ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ اس وقت ہوا جب ہفتے کے روز روسی فوجیوں نے یوکرین کے دارالحکومت کی طرف دھاوا بولا اور سڑکوں پر لڑائی شروع ہوگئی جبکہ شہری انتظامیہ نے رہائشیوں سے پناہ لینے کی اپیل کی ہے۔

ملک کے صدر نے انخلا کی امریکی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ لڑائی کے دوران وہ ملک میں ہی رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: روسی افواج کی یوکرین کے دارالحکومت کی جانب پیش قدمی

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق ہفتے کی صبح فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ فوجیوں نے کیف میں کس حد تک پیش قدمی کی، تاہم شہر کے سرحدی علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں سے پتا چلتا ہے کہ چھوٹے روسی یونٹس یوکرین کے دفاعی نظام کا اندازہ لگا رہے ہیں تاکہ مرکزی افواج کے لیے راستہ صاف کیا جاسکے۔

تاہم تین دن سے بھی کم لڑائی کے بعد فوجیوں کی تیز رفتار حرکت نے روسی حملے کے بعد جمہوری حکومت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

— فوٹو: اے ایف پی
— فوٹو: اے ایف پی

سڑکوں پر ہونے والی جھڑپیں لڑائی کے بعد ہوئیں جس نے پلوں، اسکولوں اور اپارٹمنٹ کی عمارتوں کو نقصان پہنچایا اور اس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔

امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن، یوکرین کی حکومت کا تختہ الٹنے اور اس کی جگہ اپنی حکومت لانے کے لیے پرعزم ہیں، یہ حملہ روسی صدر کی یورپ کے نقشے کو دوبارہ بنانے اور ماسکو کے سرد جنگ کے دور کے اثر و رسوخ کو بحال کرنے کی بے باکانہ کوشش ہے۔

اس نے حملے کو ختم کرنے کے لیے روسی صدر پر براہ راست پابندیوں سمیت بین الاقوامی طور پر کئی اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا۔

یہ بھی پڑھیں: روس نے یوکرین میں حکومتی تبدیلی کے حوالے سے برطانوی دعویٰ مسترد کردیا

یوکرین کو دھماکوں اور گولیوں کا سامنا ہے اسی دوران صدر ولودیمیر زیلنسکی نے جنگ بندی کی اپیل کی اور ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ متعدد شہر حملے کی زد میں ہیں، انہوں نے کہا کہ ملک کا مستقبل ہوا میں معلق ہو گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس رات ہمیں ثابت قدم رہنا ہے، اس وقت یوکرین کی قسمت کا فیصلہ ہو رہا ہے۔

بات چیت کا براہ راست علم رکھنے والے ایک سینئر امریکی انٹیلی جنس اہلکار کے مطابق یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی سے امریکی حکومت کے کہنے پر کیف کو خالی کرنے پر زور دیا گیا تھا، لیکن انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔

امریکی اہلکار نے یوکرین صدر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کا کہنا تھا کہ لڑائی یہاں ہے اور انہیں ٹینک شکن گولہ بارود کی ضرورت ہے لیکن اس پر سوار ہو کر بھاگنے کی نہیں۔

کیف میں شہر کے حکام نے رہائشیوں پر زور دیا کہ وہ محفوظ جگہ پر پناہ لیں، کھڑکیوں سے دور رہیں اور اڑتے ملبے یا گولیوں سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

کریملن نے کیف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو قبول کر لیا، لیکن روسی فوج نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے۔

گزشتہ روز جنوبی یوکرین کے شہر میلیٹوپول پر قبضے کا دعویٰ کیا گیا، جنگ کی دھند میں یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ ملک کا کتنا حصہ اب بھی یوکرین کے کنٹرول میں ہے اور روسی افواج نے کتنے حصے پر قبضہ کرلیا ہے۔

— فوٹو: اے ایف پی
— فوٹو: اے ایف پی

مزید پڑھیں: روس کے حملے کے بعد یوکرین کے مناظر

یوکرین کی فوج نے خبر دی ہے کہ اس نے کیف سے 40 کلومیٹر جنوب میں واقع شہر واسلکیو کے قریب لڑائی میں ایک II-76 روسی ٹرانسپورٹ طیارے کو گولی مار کر گرا دیا گیا ہے جس میں پیرا ٹروپرز سوار تھے، جس کی تصدیق ایک سینئر امریکی انٹیلی جنس اہلکار نے کی ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ جہاز میں کتنے لوگ سوار تھے، ٹرانسپورٹ طیارے میں 125 پیراٹروپرز بیک وقت سفر کر سکتے ہیں۔

یوکرین کے زمینی حالات سے براہ راست علم رکھنے والے دو امریکی عہدیداروں کے مطابق ایک دوسرا روسی فوجی ٹرانسپورٹ طیارہ کیف سے 85 کلومیٹر جنوب میں بلا تسرکوا کے قریب گرایا گیا۔

روسی فوج نے کسی بھی طیارے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

وسیع پیمانے پر پابندیاں

امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں نے روس پر اب تک کی سب سے سخت پابندیاں عائد کی ہیں، کیونکہ اس حملے نے دنیا کی معیشت اور توانائی کی سپلائی کو متاثر کیا۔

اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ لاکھوں لوگ یوکرین سے فرار ہو سکتے ہیں، کھیلوں کی لیگز روس کو سزا دینے کے لیے منتقل ہوئیں اور یہاں تک کہ مقبول یوروویژن گانے کے اٹلی میں ہونے والے مقابلے کے فائنل کے لیے بھی روس کی شرکت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روس کو یوکرین میں کارروائی کیلئے ہماری حمایت درکار نہیں، چین

اس سب کے باوجود روس باز نہیں آیا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کو ویٹو کردیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ یوکرین پر حملہ بند کر دے اور فوری طور پر اپنی فوجیں واپس بلا لے۔

قرارداد کو ویٹو کیے جانے کی توقع تھی، لیکن امریکا اور اس کے حامیوں کی دلیل تھی کہ یہ کوشش ماسکو کی بین الاقوامی تنہائی کو نمایاں کرے گی۔

قرارداد کو 1-11 ووٹ سے ویٹو کیا گیا جبکہ چین، بھارت اور متحدہ عرب امارات نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، ووٹنگ سے عسکری طور پر اپنے چھوٹے کمزور پڑوسی پر روس کے حملے کی کافی مخالفت ظاہر ہوئی لیکن مکمل مخالفت ظاہر نہیں ہوئی۔

نیٹو نے پہلی بار مشرق میں اپنے رکن ممالک کی حفاظت میں مدد کے لیے اتحاد کی رسپانس فورس کے کچھ حصے بھیجنے کا فیصلہ کیا، نیٹو نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے فوجی تعینات کیے جائیں گے لیکن بس اتنا بتایا کہ اس میں زمینی، سمندری اور فضائی طاقت شامل ہوگی۔

روس کے حملے کے دوسرے دن دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی سب سے بڑی زمینی جنگ یوکرین کے دارالحکومت میں جاری رہی، جہاں ایسوسی ایٹڈ پریس کے رپورٹرز نے صبح سے پہلے دھماکوں کی آوازیں سنیں، جبکہ کئی علاقوں میں فائرنگ کی اطلاعات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: روس کا یوکرین پر حملہ، عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ، اسٹاک مارکیٹس میں مندی

شام کے وقت میڈان نیزالیزنوسٹی کے قریب ایک زواردار دھماکا سنا گیا، جو وسطی کیف کا چوک تھا جو اس احتجاج کا مرکز تھا جس کی وجہ سے 2014 میں کریملن کے پسندیدہ صدر کو معزول کر دیا گیا تھا، زوردار دھماکے کی فوری طور پر وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔

کیف کے مشرقی مضافاتی علاقوں میں ایک بڑے پاور پلانٹ کے قریب 5 دھماکے ہوئے، میئر وٹالی کلیٹسکو نے بتایا دھماکوں کی وجہ کے بارے میں کوئی معلومات نہیں اور فوری طور پر بجلی کی بندش کی اطلاع نہیں ملی۔

یہ واضح نہیں تھا کہ مجموعی طور پر کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں، یوکرینی حکام نے لڑائی کے پہلے دن کم از کم 137 ہلاکتوں کی اطلاع دی اور سیکڑوں روسی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا، جبکہ روسی حکام نے کسی جانی نقصان کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔

یہ بھی پڑھیں: روس کا یوکرین پر حملہ، دفاعی اثاثے تباہ کرنے کا دعویٰ، مرکزی ایئرپورٹ کے قریب دھماکے

اقوام متحدہ کے حکام نے 25 شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے جن میں سے زیادہ تر ہلاکتیں گولہ باری اور فضائی حملوں میں ہوئی اور خیال ہے کہ ایک لاکھ کے قریب لوگ اپنا گھر بار چھوڑ چکے ہیں، حکام کا اندازہ ہے کہ اگر لڑائی بڑھ گئی تو 40 لاکھ تک لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر فرار ہو سکتے ہیں۔

ولودیمیر زیلنسکی نے ٹوئٹ کیا کہ انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن سے فون پر بات کی اور پابندیوں کو مضبوط بنانے، ٹھوس دفاعی امداد اور جنگ مخالف اتحاد پر تبادلہ خیال کیا۔

گزشتہ روز جو بائیڈن نے ایک میمو پر دستخط کیے جس میں یوکرین کو 35 کروڑ ڈالر تک کی اضافی سیکیورٹی امداد کی اجازت دی گئی، جس سے یوکرین کے لیے منظور شدہ کل سیکیورٹی امداد گزشتہ سال کے دوران ایک ارب ڈالر تک پہنچ گئی، یہ فوری طور پر واضح نہیں ہے کہ امداد کب تک ریلیز کی جائے گی۔

یوکرینی صدر نے جمعرات کو ایک کال میں یورپی رہنماؤں کو بتایا کہ وہ روس کا نمبر ایک ہدف ہیں اور ہوسکتا ہے کہ وہ انہیں دوبارہ زندہ نہ دیکھیں، ان کے ٹھکانے کو خفیہ رکھا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا روس کے 5 بینکوں اور 3 امیر ترین افراد پر پابندیاں لگانے کا اعلان

بعد ازاں ان کے دفتر نے صدارتی دفتر کے باہر سینئر معاونین کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے ان کی ایک ویڈیو جاری کی اور کہا کہ وہ اور دیگر سرکاری اہلکار دارالحکومت میں ہی رہیں گے۔

یوکرینی صدر نے اس سے قبل ولادیمیر پیوٹن کے ایک اہم مطالبے پر بات چیت کرنے کی پیشکش کی تھی کہ یوکرین خود کو غیر جانبدار قرار دے اور نیٹو میں شمولیت کے اپنے عزائم کو ترک کرے۔

کریملن نے کہا کہ کیف نے ابتدائی طور پر منسک میں بات چیت کرنے پر رضامندی ظاہر کی، پھر کہا کہ وہ وارسا کو ترجیح دے گا اور بعد میں رابطے کو منقطع کردیا۔

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے بعد میں کہا کہ کیف ہفتے کو مذاکرات کے امکانات پر بات کرے گا۔

روسی صدر نے یوکرین کے لیے اپنے حتمی منصوبوں کا انکشاف نہیں کیا ہے تاہم وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ایک اشارہ دیتے ہوئے کہا ہم یوکرین کے عوام کو اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرنے کی اجازت دینا چاہتے ہیں۔

دلادیمیرپیوٹن کے ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا تھا کہ روس ولودیمیر زیلنسکی کو صدر تسلیم کرتا ہے لیکن وہ یہ نہیں بتائیں گے کہ روسی فوجی آپریشن کب تک جاری رہ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین کے معاملے پر امریکا، اتحادیوں کی روس پر پابندیاں

پینٹاگون میں پریس سکریٹری جان کربی نے کہا ہے کہ امریکا کا خیال ہے کہ کیف پر اس کی پیش قدمی سمیت حملہ ماسکو کی منصوبہ بندی سے کہیں زیادہ آہستہ ہوا۔

انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ یوکرین کی افواج جوابی جنگ کر رہی ہیں اور ابھی فوجی مہم ابتدائی مرحلے میں ہے اور حالات تیزی سے بدل سکتے ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ نے جمعہ کے روز کہا تھا کہ وہ یورپی یونین اور برطانیہ کی طرف سے اعلیٰ روسی قیادت پر براہ راست پابندیاں لگانے کے بعد دلادیمیر پیوٹن اور دیگر کے اثاثے منجمد کرنے کے لیے آگے بڑھے گی۔

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے ولادیمیر پیوٹن اور دیگر قیادت کے خلاف پابندیوں کو مغرب کی مکمل بے بسی کے مظاہرے کی مثال قرار دیا۔

'یہ جنگ جاری رہے گی،'

ادھر فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دنیا کو روس اور یوکرین کے درمیان طویل جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

فرانسیسی صدر کا ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ یہ بحران جاری رہے گا، یہ جنگ جاری رہے گی اور اس کے ساتھ آنے والے تمام بحرانوں کے دیرپا نتائج ہوں گے اور ہمیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں