صحافتی تنظیموں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیکا آرڈیننس چیلنج کردیا

اپ ڈیٹ 03 مارچ 2022
ایف آئی اے کی ایس او پیز کے مطابق کسی بھی شخص کو اس کے نظریے کی وضاحت پیش کرنے کا موقع دیے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکتا— فائل فوٹو : اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ
ایف آئی اے کی ایس او پیز کے مطابق کسی بھی شخص کو اس کے نظریے کی وضاحت پیش کرنے کا موقع دیے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکتا— فائل فوٹو : اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اداروں کی نمائندہ تنظیموں نے پرہوینشن آف الیکٹرانک میڈیا کرائم ایکٹ (پیکا) کی ترامیم کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن (پی بی اے)، آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (اے پی این ایس)، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ ڈائریکٹرز اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے عدالت سےاستدعا کی ہے کہ گزشتہ ماہ جاری ہونے والے سخت میڈیا مخالف صدارتی آرڈیننس کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ پیکا کے سیکشن 2 اور 3 میں کی جانے والی ترامیم آزادی اظہار رائے کے قتل کے مترادف ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ’اس سے کسی بھی رکن کی شکایت پر تحقیقاتی اداروں کی جانب سے سرکاری عہدیداروں کی مبینہ ہتک عزت کے لیے مجرمانہ کارروائی میں گھسیٹے جانے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے، اور یہ ترامیم آزادانہ اظہار رائے اور منصفانہ تبصرے پر پابندی عائد کرتی ہیں‘۔

مزید پڑھیں:پیکا قانون کو آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ

23 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کی جانب سےدائر کردہ درخواست کی سماعت کے بعد عدالت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو پیکا ایکٹ کے تحت کسی بھی گرفتاری سے روک دیا تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یاد دہانی کروائی تھی کہ ایف آئی اے پہلے ہی شکایات سے متعلق سیکشن 20 کے تحت اختیارات کے استعمال کے طریقہ کار کے حوالے سے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) جمع کروا چکا ہے۔

ایس او پیز کے مطابق کسی بھی شخص کو اس کے نظریے کی وضاحت پیش کرنے کا موقع دیے بغیر گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے۔

پی ایف یو جے کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت کے لیے یہ بات تشویش ناک ہے کہ قوانین کو آرڈی نینس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا، یہ عدالت پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 کالعدم قرار کیوں نہ دیں؟

یہ بھی پڑھیں:پیکا ترمیمی آرڈیننس کےخلاف وکلا، صحافتی برادری اور اپوزیشن سرگرم

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دنیا میں عدالتیں ایسا کر چکی ہیں، اگر ایگزیکٹو کو اپنی ساکھ کا اتنا خیال ہے تو اس میں سے پبلک آفس ہولڈرز کو نکال دیں۔

پیکا آرڈیننس

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 20 فروری کو چھٹی کے دن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا تھا۔

پیکا ترمیمی آرڈیننس میں سیکشن 20 میں ترمیم کی گئی ہے، جس کے مطابق ’شخص‘ کی تعریف تبدیل کرتے ہوئے ’شخص‘ میں کوئی بھی کمپنی، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے کی صورت میں قید 3 سے بڑھا کر 5 سال تک کردی گئی ہے۔

آرڈیننس کے مطابق ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔

پیکا آرڈیننس کے مطابق الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب ٹیلی ویژن پر کسی بھی 'فرد' کے بارے میں فیک نیوز (جعلی خبر) یا تضحیک بھی الیکٹرانک کرائم تصور کی جائے گی۔

جعلی خبر نشر کرنے کی صورت میں صرف متاثرہ فرد ہی نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اتھارٹی سے رابطہ کر کے مقدمہ درج کرا سکے اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہو گا۔

مزید پڑھیں: 'پیکا' ترمیمی آرڈیننس 2022 اسلام آباد، لاہور ہائی کورٹس میں چیلنج

ٹرائل کے دوران اگر ایسا محسوس ہو کہ مقدمے کو نمٹانے میں رکاوٹیں حائل ہیں تو صوبائی حکومتوں اور افسران کو انہیں دور کرنے کی ہدایت کی جائے گی،ان کیسز کے لیے جج اور افسران کی نامزدگی کا اختیار متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہو گا۔

مذکورہ آرڈیننس کو 'امتناع الیکٹرانک کرائم آرڈیننس 2022' کا نام دیا گیا ہے جو فوری طور پر نافذالعمل ہوچکا ہے۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا تھا کہ پیکا آرڈیننس میں سزا 3 سے 5 سال تک ہے جبکہ اس کا شکایت کنندہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ کچھ صحافی ہیں جو جعلی خبروں کے ذریعے معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کا پیکا آرڈیننس، اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ

یاد رہے کہ پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا)، 2016 میں اپوزیشن کی مخالفت کے باجود اس وقت قومی اسمبلی سےمنظور ہوگیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت تھی۔

مسلم لیگ (ن) نے اکثریت کے بل بوتے پر متنازع بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا تھا، تاہم اپوزیشن نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت انتظامی عہدیداروں کو غیر ضروری اختیارات حاصل ہوں گے، جن کا کسی کے خلاف بھی غلط استعمال ہوسکتا ہے اور مزید یہ کہ ملک میں آزادی اظہار رائے متاثر ہوسکتی ہے۔

قانون میں بتایا گیا تھا کہ مزاحیہ یا طنزیہ مواد کی حامل ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے افسران کو کمپیوٹر، موبائل فون یا کوئی بھی ڈیوائس کھولنے کا اختیار دیا گیا، جس کا مقصد جرم یا الزام پر تفتیش تھا اور بدنام کرنا قابل تعزیر جرم ہوگا۔

نومبر 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے پیکا کے تحت سوشل میڈیا کے قوانین مرتب کیے، جس پر ڈیجیٹل رائٹس کے کارکنوں، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر آف پاکستان اور ایشیا انٹرنیٹ کولیشن نے تنقید کی اور قانون کو وحشیانہ قرار دیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں