دنیا بھر میں 'منکی پاکس' کے مزید کیسز سامنے آنے کا خدشہ

اپ ڈیٹ 24 مئ 2022
ماہرین کے مطابق مونکی پاکس بہت تیزی سے نہیں پھیلتا—فوٹو: لائیو سائنس
ماہرین کے مطابق مونکی پاکس بہت تیزی سے نہیں پھیلتا—فوٹو: لائیو سائنس

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق 21 مئی تک دنیا کے مختلف ممالک میں تقریباً 80 منکی پاکس وائرس کے کیسز کی تصدیق ہو چکی تھی جب کہ 11 ممالک میں مزید 50 کیسز کی تحقیقات جاری ہیں۔

یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں منکی پوکس کے بڑھتے ہوئے کیسز سامنے آنے کے بعد عالمی سطح پر صحت کے لیے کام کرنے والے حکام نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

منکی پاکس وائرل انفیکشن کی ایک ایسی قسم ہے جو عام طور پر مغربی اور وسطی افریقہ کے ممالک زیادہ پائی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مونکی پاکس کے نئے کیسز سامنے آنے کے بعد یورپ، امریکا میں صحت حکام الرٹ

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق 21 مئی تک دنیا کے مختلف ممالک میں تقریباً 80 منکی پاکس وائرس کے کیسز کی تصدیق ہو چکی تھی جب کہ 11 ممالک میں مزید 50 کیسز کی تحقیقات جاری ہیں۔

ہمیں منکی پاکس کے بارے میں کتنا فکر مند ہونا چاہئے؟

امریکی محکمہ صحت عامہ کے ایک عہدیدار نے 2 روز قبل ایک بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ اس وقت عام لوگوں کے لیے خطرہ کم ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ منکی پاکس ایک بہت کم پایا جانے والا وبائی وائرس ہے، یہ انفیکشن انسانوں میں پائے جانےوالے چیچک کے وائرس سے ملتا ہے، اس وبا کی علامات میں بخار ہونا، سر میں درد ہونا اور جلد پر خارش ہونا شامل ہیں۔

امریکی محکمہ صحت عامہ کے ایک عہدیدار نے مزید بتایا تھا کہ اس کا وائرس تعلق چیچک سے ہے لیکن عام طور پر اس کے اثرات و علامات ہلکی ہوتی ہیں خاص طور پر اس وائرس کی مغربی افریقی قسم جس کی شناخت امریکی کیس میں ہوئی تھی، اس کی شرح اموات تقریباً 1 فیصد ہے۔

محکمہ صحت کے عہدیدار کا مزید کہنا تھاکہ اس سے متاثرہ زیادہ تر لوگ دو سے چار ہفتوں میں مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ وائرس ایس اے آر ایس سی او وی 2 ، جس سے کوڈ 19 پھیلنا شروع ہوا تھا، اس کی طرح تیزی سے نہیں پھیلتا، منکی پاکس صرف قریبی تعلقات اور خصوصی طور پر جسمانی تعلقات سے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مونکی پاکس ایک درجن ممالک تک پھیل گیا، 100 سے زائد کیسز رپورٹ

ماہرین کو خدشہ ہے کہ منکی پاکس ان مرد حضرات میں تیزی سے پھیلتا ہے جو ہم جنس پرستی کی جانب راغب ہوتے ہیں۔

میساچوسٹس جنرل ہسپتال کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ کورونا سانس کے ذریعے پھیلتا ہے اور انتہائی متعدی وائرس ہے جب کہ منکی پاکس کا یہ معاملہ نہیں ہے۔

ماہرین صحت کو کیا تشویش ہے؟

ڈبلیو ایچ او کے مطابق اب تک کی رپورٹ کردہ حالیہ کیسز غیر معمولی ہیں، کیونکہ یہ ان ممالک میں پائے جا رہے ہیں جہاں وائرس عام طور پر نہیں پھیلتا۔

سائنس دان موجودہ کیسز کا باریک بینی سے جائزہ لے کر سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا اس وائرس میں کسی قسم کی کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔

اب تک رپورٹ ہونے والے زیادہ تر کیسز برطانیہ، اسپین اور پرتگال میں پائے گئے ہیں جبکہ کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی ایسے کیسز سامنے آئے ہیں، بوسٹن میں منکی پاکس کے ایک کیس کی تصدیق ہوئی ہے۔

محکمہ صحت عامہ کے حکام کا کہنا ہے کہ امریکا میں مزید کیسز سامنے آنے کا امکان ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے عہدیداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آنے والے موسم گرما کے مہینوں کے دوران یورپ اور دیگر مقامات پر جب لوگ تہواروں، پارٹیوں اور تعطیلات کے لیے جمع ہوتے ہیں اس وقت مزید اکیسز سامنے آ سکتے ہیں۔

لوگ انفیکشن سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

برطانیہ میں منکی پاکس کے کیسز ظاہر ہونے کے بعد حکام نے شعبہ صحت میں کام کرنے والے لوگوں اور دیگر افراد کو چیچک کی ویکسین لگانی شروع کردی ہے جو کہ منکی پاکس وائرس کے خلاف تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے اسٹریٹجک نیشنل اسٹاکپائل (ایس این ایس) ادارے کے پاس پوری امریکی آبادی کو چیچک کی ویکسین لگانے کے لیے خوراک موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا چکن پاکس کسی شخص کو 2 بار نشانہ بناسکتا ہے؟

یو ایس ڈپارٹمنٹ آف ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز کے ترجمان کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ چیچک کے لیے اینٹی وائرل ادویات موجود ہیں جو مخصوص حالات میں منکی پاکس کے علاج کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔

صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ لوگوں کو کسی ایسے شخص کے ساتھ قریبی ذاتی تعلقات سے گریز کرنا چاہیے جسے جلدی بیماری ہو یا کوئی اور بیماری ہو جب کہ جن لوگوں کوشبہ ہے کہ انہیں منکی پاکس ہے وہ الگ تھلگ رکھیں اور طبی امداد حاصل کریں۔

کیسز میں اضافے کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟

کینیڈا کی یونیورسٹی میں ویکسین اینڈ انفیکشییس ڈیزیز آرگنائزیشن کی وائرولوجسٹ انجیلا راسموسن کا کہنا ہے کہ وائرس کا سامنے آنا کوئی نئی چیز نہیں، یہ متوقع چیز ہیں۔‘

انجیلا راسموسن کا کہنا ہے کہ عالمی سفر میں اضافے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں سمیت متعدد عوامل نے وائرس کے سامنے آنے اور اس کے پھیلاؤ کے عمل کو تیز تر کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کوویڈ وبائی مرض کے تناظر میں کسی بھی قسم کے نئے وارئرس کے پھیلنے کے بارے میں زیادہ چوکس اور الرٹ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں