بھارت: توہین آمیز ریمارکس کے خلاف احتجاج پر گرفتار مسلمان سماجی کارکن کا گھر مسمار

اپ ڈیٹ 12 جون 2022
پریاگراج ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے جاوید محمد کے اہل خانہ کو صبح 11 بجے تک گھر خالی کرنے کو کہا تھا —فوٹو: پیوش رائے ٹوئٹر
پریاگراج ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے جاوید محمد کے اہل خانہ کو صبح 11 بجے تک گھر خالی کرنے کو کہا تھا —فوٹو: پیوش رائے ٹوئٹر

بھارت ریاست اترپردیش کے پریاگراج، سابقہ الہٰ آباد میں شہری انتظامیہ نے ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے کارکن جاوید محمد کے گھر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسمار کرنا شروع کر دیا۔

اس سے قبل اتوار کے روز ہی پریاگراج ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے جاوید محمد کے اہل خانہ کو صبح 11 بجے تک گھر خالی کرنے کو کہا تھا۔

پریاگراج ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے 10 مئی کو جاوید محمد کو شوکاز نوٹس دیا تھا اور انہیں 24 مئی کو سماعت کے لیے پیش ہونے کا کہا تھا، تاہم جاوید محمد نے اس نوٹس کی تعمیل نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: توہین آمیز بیان پر مظاہرہ کرنے والوں کےخلاف کریک ڈاؤن، مغربی بنگال میں ایمرجنسی نافذ

جاوید محمد کی چھوٹی بیٹی سومیا فاطمہ نے اسکرول اِن سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے خاندان کو ان کے گھر کے مبینہ غیر قانونی ہونے کے بارے میں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا، جاوید محمد کے وکیل نے بھی گھر کے انہدام کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا اور دعویٰ کیا کہ یہ گھر ان کی اہلیہ کی ملکیت ہے لیکن انتظامیہ کی جانب سے جاری حکم نامے میں ان کی اہلیہ کا نام تک نہیں لیا گیا۔

ہفتے کے روز پولیس نے جاوید محمد کو مبینہ طور پر پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو رہنماؤں کے توہین آمیز ریمارکس کے خلاف پرتشدد مظاہرے کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

سومیا فاطمہ نے اسکرول اِن کو بتایا کہ انہیں اور ان کی والدہ کو بھی ہفتے کے روز حراست میں لیا گیا تھا اور انہیں اتوار کی صبح رہا کیا گیا۔

اگرچہ بھارتی قانون کے تحت کسی جرم کے الزام میں مجرم کے گھر کو منہدم کرنے کی کوئی دفعات نہیں ہیں، لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی ریاستوں میں باقاعدگی سے اس طرز عمل کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

'پہلے کوئی نوٹس نہیں دیا گیا'

جاوید محمد کی بیٹی سومیا فاطمہ نے اسکرول اِن کو مزید بتایا کہ انتظامیہ نے گھر کے غیر قانونی ہونے کے بارے میں پہلے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا تھا، یہ پہلا نوٹس ہے جو ہمیں کل رات یعنی بروز ہفتہ ملا، ایک دن پہلے تک کسی نے بھی ہم سے اس بارے میں بات نہیں کی، اگر ہماری جائیداد واقعی غیر قانونی تھی تو انہوں نے ہمیں یہ نوٹس پہلے کیوں نہیں دیے، یہ ہمارے لیے ناقابل یقین حد تک مشکل وقت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گستاخانہ بیان کے خلاف بھارت میں پرتشدد مظاہرے، 2 افراد جاں بحق

انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں اور ان کی والدہ 50 سالہ پروین فاطمہ کو پریاگراج پولیس نے اتوار کی رات تقریباً ساڑھے 12 بجے حراست میں لیا اور شہر کے سول لائنز خاتون پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، انہوں نے ہم سے عجیب سوالات کیے جیسے کہ ہم گھر میں کس قسم کی گفتگو کرتے ہیں اور ہم کس قسم کی پوسٹس شیئر کرتے ہیں، وہ ہم سے کچھ متنازع قسم کی باتیں نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔

سومیا فاطمہ نے مزید بتایا کہ جب خواتین پولیس اہلکار ان سے پوچھ کچھ کر رہی تھیں تو اس دوران ایک مرد افسر نے ان کی والدہ کو گالی دی اور کہا کہ ان سے 'سچ اگلوانے' کے لیے طاقت کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

پولیس نے سومیا فاطمہ اور ان کی والدہ پروین فاطمہ کو بھی گھر فون کرکے گھر خالی کرنے کو کہا، اتوار کو رہا ہونے کے بعد صومیہ فاطمہ اور پروین فاطمہ کو ان کے اپنے گھر کے بجائے ان کے رشتہ داروں کے گھر لے جایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ یہ جگہ نہ چھوڑیں، انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے خاندان کو ابھی تک ان کے والد کے ٹھکانے کے بارے میں نہیں معلوم۔

گھر مسمار کرنے کے خلاف درخواست دائر

جاوید محمد کے خاندان کے وکیل کمال کرشن رائے رائے نے اسکرول اِن کو بتایا کہ الہ آباد ہائی کورٹ میں گھر کو مسمار کرنے کے اقدام کو چیلنج کرتے ہوئے ایک پٹیشن دائر کردی گئی ہے۔

وکیل کمال کرشنا رائے اور دیگر وکلا کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ مکان جاوید محمد کی اہلیہ پروین فاطمہ کے نام پر رجسٹرڈ تھا، پریاگراج شہری انتظامیہ کی دستاویزات میں بھی پرون فاطمہ کا نام درج تھا۔

یہ بھی پڑھیں: گستاخانہ بیان پر بھارتی ناظم الامور دفتر خارجہ طلب، مسلح افواج کا بھی اظہار مذمت

وکیل کمال کرشنا رائے نے اسکرول اِن کو بتایا کہ یہ گھر پروین فاطمہ کے والد نے تحفہ دیا تھا، مسلم پرسنل لا کے تحت جب عورت کو کوئی جائیداد ملتی ہے تو یہ خود بخود اس کے شوہر کی ملکیت نہیں ہوجاتی، حکومت نے جو نوٹس جاری کیا ہے وہ جاوید محمد کے نام پر جاری کیا ہے جبکہ یہ جائیداد ان کی ملکیت نہیں ہے۔

چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ، پولیس اور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اس مکان کو گرانے کی کوئی بھی کوشش قانون کے بنیادی اصول کے خلاف اور جاوید محمد کی بیوی اور بچوں کے ساتھ سنگین ناانصافی ہوگی۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ جاوید محمد کے خاندان کو کوئی شوکاز نوٹس موصول نہیں ہوا جیسا کہ گھر کو مسمار کرنے کے احکامات میں ذکر کیا گیا ہے۔

وکیل کمال کرشنا رائے نے مزید کہا کہ وہ درخواست کی جلد سماعت کی توقع رکھتے ہیں۔

جاوید محمد کی گرفتاری

اترپردیش پولیس نے جاوید محمد کو ہفتہ کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب پریاگراج، سابقہ الہٰ آباد کے علاقے اٹالا میں کچھ مظاہرین نے نماز جمعہ کے بعد پولیس پر پتھراؤ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: بی جے پی رہنماؤں کے پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق توہین آمیز ریمارکس، مسلم دنیا میں غم و غصے کی لہر

پولیس نے ذیابیطس کے مریض اور روزانہ کی بنیاد پر انسولین لینے والے جاوید محمد کو احتجاج کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا ہے۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اجے کمار نے الزام لگایا تھا کہ جاوید محمد نے اپنی بیٹی و طالب علم کارکن آفرین فاطمہ سے بھی احتجاج کے بارے میں مشورہ کیا تھا۔

آفرین فاطمہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’پہلے پولیس اہلکار 8 بجکر 30 منٹ پر میرے والد کو لے گئے اور پھر دوبارہ رات 11 بجکر 30 منٹ پر آئے اور میری والدہ اور بہن کو گرفتار کیا، پھر رات ڈھائی بجے تیسری بار میرے گھر آئے اور مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے مزاحمت کی جس کے بعد پولیس نے میرے گھر کو گھیرے میں لے لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گھر میں اب صرف خواتین اور بجے موجود ہیں، ہم گھبرائے ہوئے ہیں اور صدمے میں مبتلا ہیں، پولیس نے ہمیں گھر چھوڑنے کے لیے کہا ہے‘۔

آفرین نے مزید کہا کہ مجھے علم نہیں ہے کہ میرے والدین اور بہن کہاں ہیں، میں ان کی سلامتی کے حوالے سے پریشان ہوں، میرے والد ذیابیطس کے مریض ہیں اور ان کے لیے ہر رات انسولین کا انجیکشن لگانا لازمی ہے‘۔

سومیا فاطمہ نے کہا پولیس نے اسے اور اس کی بھابھی کو حراست میں لینے کی کوشش کی۔

ہفتے کی رات سامنے والے مناظر میں جاوید محمد اور آفرین فاطمہ کے گھر پر کئی پولیس اہلکاروں کو دیکھا گیا۔

ہفتہ کے روز اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیا ناتھ نے کہا تھا کہ امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والے سماج دشمن عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایک بھی بے گناہ کو پریشان نہیں کیا جائے گا اور ایک مجرم کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔

بی جے پی کے ریاستی سربراہ سواتن ترا دیو سنگھ نے تشدد میں ملوث ملزمان کے گھروں کو مسمار کرنے کے مطالبات کی حمایت کی، انہوں نے جن کے گھر بلڈوزر کے سائے میں ہوں وہ دوسروں پر پتھر نہیں پھینکتے۔

یہ بھی پڑھیں: کچھ اعلیٰ بھارتی سرکاری عہدیدار اقلیتوں پر حملوں کی حمایت کر رہے ہیں، امریکا

ہفتے کے روز کانپور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے شہر میں گزشتہ ہفتے ہونے والے تشدد کے مرکزی ملزم کے قریبی ساتھی کی ملکیت 4 منزلہ عمارت کو منہدم کر دیا۔

واضح رہے کہ بی جے پی رہنماؤں کے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گستاخانہ ریمارکس کے بعد 3 جون کو کانپور میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں کم از کم 40 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

بی جے پی کی اب معطل شدہ ترجمان نوپور شرما نے 26 مئی کو ٹائمز ناؤ ٹیلی ویژن چینل پر ایک مباحثے کے دوران توہین آمیز تبصرے کیے تھے جبکہ نوین جندال، جو بی جے پی دہلی یونٹ کے میڈیا ہیڈ تھے، انہوں نے یکم جون کو پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں ایک ٹوئٹ کیا تھا، بعد میں انہوں نے ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیا تھا، نوین جندال کو 5 جون کو پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔


یہ مضمون اصل میں اسکرول اِن شائع ہوا تھا جسے اجازت کے ساتھ دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں