پنجاب: 32 کھرب 26 ارب روپے کا بجٹ پیش، تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ

اپ ڈیٹ 15 جون 2022
وزیر خزانہ پنجاب اویس لغاری نے مالی سال 23-2022 کا صوبائی بجٹ پیش کردیا — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خزانہ پنجاب اویس لغاری نے مالی سال 23-2022 کا صوبائی بجٹ پیش کردیا — فوٹو: ڈان نیوز
ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری نے اجلاس کی صدارت کی —فوٹو: ڈان نیوز
ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری نے اجلاس کی صدارت کی —فوٹو: ڈان نیوز

غیر معمولی آئینی اور سیاسی صورتحال کے دوران گورنر کی جانب سے ایوان اقبال میں طلب کردہ اجلاس میں وزیر خزانہ پنجاب اویس لغاری نے مالی سال 23-2022 کا 32 کھرب 26 ارب روپے حجم کا صوبائی بجٹ پیش کردیا جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

پنجاب اسمبلی کا بجٹ اجلاس ایوان اقبال میں ہوا، ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری نے اجلاس کی صدارت کی جبکہ دوسری جانب اسپیکر پرویز الہٰی کی سربراہی میں پنجاب اسمبلی میں بھی اجلاس ہوا، جس میں مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے ارکان صوبائی اسمبلی شریک تھے۔

ایوان اقبال میں ہونے والے حکومتی اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز جبکہ سیکریٹری پنجاب اسمبلی احمد رضا سرور بھی موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ: ایک ہزار 714 ارب کا بجٹ پیش، تعلیم کیلئے 326 ارب مختص، تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ

پنجاب اسمبلی کااجلاس سوا 2 گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا، ڈپٹی اسپیکر سردار دوست مزاری نے اجلاس کے آغاز میں گورنر پنجاب کا نوٹی فکیشن پڑھ کر سنایا، اسپیکر نے پینل آف چیئرمین کے ناموں کا اعلان بھی کیا، پینل آف چئیرمین میں رانا مشہود، خلیل طاہر سندھو، سمیرا احمد، مخدوم عثمان کے نام شامل تھے۔

ڈپٹی اسپیکر سردار دوست مزاری نے کہا کہ گورنر پنجاب نے صوبائی اسمبلی کا اجلاس بجٹ کے لیے مختص کیا ہے، سردار اویس لغاری بجٹ پیش کریں جس کے بعد صوبائی وزیر خزانہ سردار اویس لغاری نے بجٹ تقریر کا آغاز کرتے ہوئے سابق پی ٹی آئی کی حکومت پر سخت تنقید کی۔

'سابق حکومت کے مجرمانہ طرز عمل کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں'

سردار اویس لغاری نے کہا کہ سابق وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے گزشتہ سال پاکستان کی تاریخ کی ترقی کے حوالے سے بدترین سال تھے، صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی، کرپشن کے ریکارڈ رقم ہو رہے تھے، اس دوران کوئی قابل ذکر کارنامہ نظر نہیں آتا، صرف مخالفین کے خلاف الزام تراشیاں کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ جب 18۔2017 میں مسلم لیگ (ن) نے اپنا آخری بجٹ پیش کیا تھا اس وقت ملک کی شرح نمو میں اضافہ ہو رہا تھا جبکہ فی کس آمدنی بھی 1629 ڈالر تک پہنچ گئی تھی، ملک کو سرمایہ کاری کے لیے موزوں ملک قرار دیا گیا، اسٹاک مارکیٹ اوپر جارہی تھی، عالمی ادارے معاشی ترقی کی تائید کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا: 1332 ارب کا بجٹ، ترقیاتی منصوبوں کیلئے 418 ارب، تنخواہوں میں 16 فیصد اضافہ

اویس لغاری نے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان نواز شریف اور شہباز شریف کی قیادت میں سی پیک کے منصوبوں پر تیزی سے کام جاری تھا، سی پیک کے تحت 51 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی، اس وقت کے سب سے بڑے چینلج توانائی کے بحران پر قابو پایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے جرائم میں سی پیک اور چین کے ساتھ ان کی بدسلوکی سرفہرست ہوگی، عوام جانتے ہیں کس نے چینی صدر کا دورہ ملتوی کرایا، کس نے اعلان کیا تھا کہ ہم ان منصوبوں میں شامل بیرونی سرمایہ کاروں کے خلاف مقدمے چلائیں گے، ان کے ان مجرمانہ طرز عمل کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس بدترین صورتحال میں بھی ہم مایوس نہیں ہیں، ہم نے کیا تھا اور آئندہ بھی کرکے دکھائیں گے، سابق حکومت نے توانائی کے مسئلے پر توجہ نہیں دی جو کہ کئی مسائل کی جڑ ہے جن میں بیروزگاری، غربت اور مہنگائی بھی شامل ہیں۔

صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ 3 سالوں کے دوران صوبے کے تعلیمی اداروں میں بچوں کی تعداد میں کمی ہوئی، اس کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے میں بھی ان کی کارکردگی مایوس کن رہی، سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات کی فراہمی صرف اس لیے بند کردی گئی کیونکہ وہ منصوبہ شہباز شریف نے شروع کیا تھا، مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے صوبے میں کینسر کے مریضوں کے مفت علاج کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 23-2022 کا بجٹ پیش، دفاعی بجٹ میں اضافہ، ماہانہ ایک لاکھ تک تنخواہ پر ٹیکس ختم

انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے کینسر کے مفت علاج کے خاتمے کا اعلان کیا، ہماری حکومت کے صحت کارڈ پروگرام کو انصاف کارڈ کا نام دے کر عوام کی اشک جوئی کی ناکام کوشش کی گئی، ان کے دور حکومت میں نہ کوئی نیا ہسپتال بنایا گیا نہ کوئی یونیورسٹی۔

'بجٹ کی تیاری میں ماہرین کی تجاویز کو مدنظر رکھا گیا'

ان کا کہنا تھا کہ سابق حکومت نے عوام کو مستقل ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات کے بجائے پناہ گاہوں کے خواب دکھائے، ٹرانسپورٹ کا کوئی نیا منصوبہ متعارف نہیں کرایا گیا، خواتین کی فلاح و بہبود کے شعبے کو مکمل طور پر انداز کیا گیا، ایک کروڑ نوکریاں اور 50 گھروں کی تعمیر کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔

اویس لغاری نے کہا کہ مہنگائی کا طوفان کھڑا کرنے والے سابق حکمراں آج بھی ملک میں آئینی و قانونی بحران کھڑا کرنے میں مصروف ہیں، ان کی غفلت کے باعث جاری منصوبوں کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے احکامات کی روشنی میں صوبائی حکومت کے لیے ان مشکل حالات میں ایک مکمل اور متوازن بجٹ پیش کرنا آسان نہیں تھا مگر ہماری جماعت نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایک عوام دوست بجٹ کی تیاری کو یقینی بنایا جس کی ترجیح مہنگائی کے ستائے عوام کو سماجی تحفظ کی فراہمی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی کی آزادانہ حیثیت ختم، وزارت قانون کے ماتحت کردیا گیا

صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ عوام دوست بجٹ کی تیاری میں تمام اہم شعبوں کے ماہرین کی جانب سے موصول ہونے والی تجاویز کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت عالمی معاشی بحران کے علاوہ ملکی برآمدات میں کمی، پیٹرول کی قیمت میں عالمی سطح پر اضافے سے ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، رہی سہی کسر سابق حکومت کے رویے کے علاوہ ان کے آئی ایم ایف کے ساتھ سخت شرائط پر کیے گئے معاہدے نے پوری کردی۔

انہوں نے کہا کہ ان کی معاہدے کی پاسداری ہماری حکومت کو کرنی پڑی، کیونکہ عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی پاکستان پر سے ان کا اعتماد ختم کرسکتی ہے۔

بجٹ کے چیدہ نکات:

  • پنجاب کے 23۔2022 کے بجٹ کا مجموعی حجم 3 ہزار 226 ارب روپے تجویز
  • کُل آمدن کا تخمینہ 2 ہزار 521 ارب 29 کروڑ روپے مقرر
  • فیڈرل ڈیویسبل پول سے پنجاب کے لیے 2 ہزار 20 ارب 74 کروڑ روپے آمدن کا تخمینہ
  • صوبائی محصولات کی مد میں گزشہ سال سے 24 فیصد اضافے کے ساتھ 500 ارب 53 کروڑ روپے کا تخمینہ
  • پنجاب ریونیو اتھارٹی سے 22 فیصد اضافے کے ساتھ 190 ارب روپے محصولات کی وصولی کا ہدف
  • بورڈ آف ریونیو سے 44 فیصد اضافے کے ساتھ 95 ارب روپے محصولات کی وصولی کا ہدف
  • محکمہ ایکسائز سے 2 فیصد اضافے کے ساتھ 43 ارب 50 کروڑ محصولات کی وصولی کا ہدف
  • نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 24 فیصد اضافے کے ساتھ 163 ارب 53 کروڑ روپے کا تخمینہ
  • 435 ارب 87 کروڑ روپے تنخواہوں، 312 ارب روپے پنشن کے لیے مختص
  • 528 ارب روپے مقامی حکومتوں کے لیے مختص
  • سیلز ٹیکس آن لائن سروسز کی مد میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا
  • شہری علاقوں میں اسٹیمپ ڈیوٹی کی شرح کو ایک فیصد سے بڑھا کر 2 فیصد کرنے کی تجویز
  • امیر اور مراعات یافتہ طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ
  • پنجاب فنانس ایکٹ 2014 کے تحت پرتعیش گھروں پر عائد کردہ لگژری ہاؤس ٹیکس کے شیڈول میں بلحاظ رقبہ نئے ریٹ متعارف کرانے کی تجویز
  • موٹر گاڑیوں کے پرکشش نمبروں کی نیلامی کے لیے نظر ثانی شدہ ای آکشن پالیسی کا اجرا

ترقیاتی بجٹ میں 22 فیصد اضافہ

  • 23۔2022 کے بجٹ کا مجموعی حجم گزشتہ سال سے 22 فیصد زائد رکھنے کی تجویز
  • ایک ہزار 712 ارب روپے جاری اخراجات کی مد میں تجویز
  • سستے آٹے کی فراہمی کے لیے 200 ارب روپے
  • اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی، رعایتی نرخوں پر سفری سہولیات، کھاد، زرعی ضروریات کے لیے 142 ارب روپے مختص
  • ترقیاتی بجٹ کے لیے 22 فیصد اضافے کے ساتھ 685 ارب مختص
  • سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے لیے 35 ارب روپے مختص
  • قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے 6 ارب روپے مختص
  • پنجاب سیف سیٹیز اتھارٹی کے لیے 3 ارب 6 کروڑ روپے مختص
  • صحت کے شعبے کے لیے 470 ارب روپے مختص
  • پی کے ایل آئی کے لیے 5 ارب روپے مختص
  • یکم جولائی 2022 سے تمام سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات دینے کا اعلان
  • فیملی پلاننگ سروسز کے لیے 4 ارب روپے مختص
  • لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے ایک ارب 50 کروڑ روپے مختص
  • جنوبی پنجاب کی ترقی کے لیے 240 ارب روپے مختص
  • سماجی شعبے کے لیے 272 ارب 60 کروڑ روپے مختص
  • سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کے قیام کے لیے ایک ارب 40 کروڑ روپے مختص
  • واسا کے لیے 7 ارب روپے کے فنڈ مخصوص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

شعبہ تعلیم

  • تعلیم کے شعبے کے لیے مجموعی طور پر 485 ارب 26 کروڑ روپے مختص
  • شعبہ تعلیم کے لیے 428 ارب 56 کروڑ غیر ترقیاتی، 56 ارب 70 کروڑ روپے ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص
  • محکمہ اسکول ایجوکیشن کے لیے 421 ارب 6 کروڑ مختص
  • محکمہ ہائر ایجوکیشن کے لیے 59 ارب 7 کروڑ روپے مختص
  • محکمہ اسپیشل ایجوکیشن کے لیے ایک ارب 52 کروڑ روپے مختص
  • خواندگی و غیر رسمی تعلیم کے لیے 59 کروڑ روپے مختص
  • محکمہ اسکول کے لیے مختص کردہ 382 ارب میں سے 5 ارب 53 کروڑ 6 لاکھ روپے ’زیور تعلیم‘ پروگرام کے لیے مختص
  • مفت کتب فراہمی کے لیے 3 ارب 20 کروڑ روپے مختص
  • اسکول کونسلز کے ذریعے تعلیمی سہولیات کے لیے 14 ارب 93 کروڑ روپے مختص
  • دانش اسکولز کے جاری تعلیمی اخراجات کے لیے 3 ارب 75 کروڑ روپے مختص
  • محکمہ اسکول ایجوکیشن کے لیے مختص 39 ارب میں سے نئے دانش اسکولز کے لیے ایک ارب 50 کروڑ مختص
  • پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پروگرام کے تحت پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے لیے 21 ارب 50 کروڑ مختص
  • پنجاب ایجوکیشن انیشی ایٹو مینجمنٹ اتھارٹی کے لیے 4 ارب 80 کروڑ مختص
  • اسکولوں کی خستہ حال عمارتوں کی بحالی کے لیے ایک ارب 50 کروڑ روپے مختص
  • صوبے کے اسکولوں میں اضافی کمروں کی تعمیر کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

شعبہ زراعت اور لائیو اسٹاک

  • زراعت کے شعبے کے لیے مجموعی طور پر 5 ارب 19 کروڑ روپے مختص
  • زرعی اجلاس کی پیداوار میں اضافے کے پروگرام کے لیے 3 ارب 65 کروڑ روپے مختص
  • لائیو اسٹاک شعبہ تحقیق و تدریس کے لیے بجٹ میں 35 کروڑ روپے مختص
  • لائیو اسٹاک عدم دستیاب سہولیات کی فراہمی کے لیے 60 کروڑ روپے مختص
  • آب پاشی کے لیے مجموعی طور پر 53 ارب 32 کروڑ روپے مختص
  • انفرااسٹرکچر کی مد میں سڑکوں، پُلوں کی تعمیر کے لیے 80 ارب 77 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

ویمن ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے لیے ایک ارب 27 کروڑ روپے مختص

اویس لغاری نے بتایا کہ ملک کی ترقی میں خواتین کا اہم کردار ہے، خواتین ہمارے ملک کی آبادی کا نصف حصہ ہیں، ان کی فلاح و بہبود حکومت کی اولین ترجیح ہے، حکومت نے ویمن ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے لیے مجموعی طور پر ایک ارب 27 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے جبکہ خواتین اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور پولیو ورکرز کو اسکوٹیز بھی دی جائیں گی۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد، پنشن میں 5 فیصد اضافہ

  • صنعت کے شعبے کے لیے مجموعی طور پر 23 ارب 83 کروڑ روپے مختص
  • ٹرانسپورت کے منصوبوں کے لیے 72 کروڑ روپے مختص
  • محکمہ توانائی کے ترقیاتی بجٹ کے لیے 5 ارب روپے مختص
  • موسمیاتی تغیرات سے پیدا مسائل کے حل کے لیے 6 ارب روپے مختص
  • اسپورٹس اینڈ یوتھ افیئرز کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب روپے مختص
  • اقلیتوں کے تحفظ کے لیے 2 ارب 50 کروڑ روپے مختص
  • سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ
  • سرکاری ملازمین کی پنشن میں 5 فیصد اضافہ
  • دیہاڑی دار اور مزدوروں کی کم از کم اجرت 20 ہزار سے بڑھا کر 25 ہزار روپے کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

وزیر خزانہ اویس لغاری نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ گریڈ ایک سے گریڈ 19 تک ایک حد سے کم الاؤنس لینے والوں کو 15 فیصد اسپیشل الاؤنس بھی دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں مزدور کی کم سے کم اجرت بھی 20 ہزار روپے سے بڑھا کر 25 ہزار روپے کردی گئی ہے۔

واضح رہے کہ ایوان اقبال میں بجٹ اجلاس کے دوران دوسری جانب اسپیکر پرویز الہٰی کی سربراہی میں پنجاب اسمبلی میں بھی اجلاس ہوا، جس میں مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے ارکان صوبائی اسمبلی شریک تھے۔

اجلاس میں پی ٹی آئی رکنِ اسمبلی ڈاکٹر یاسمین راشد نے ایوان میں صوبائی وزیر عطا اللہ تارڑ کے خلاف تحریک استحقاق جمع کرائی جسے منظور کرلیا گیا جس کے بعد اسپیکر نے اجلاس کل تک کے لیے ملتوی کردیا۔

یاد رہے کہ پنجاب میں ہر گزرتے دن کے ساتھ گمبھیر ہوتے سیاسی بحران کے دوران گورنر بلیغ الرحمٰن نے ایک نوٹی فکیشن جاری کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی آزادانہ حیثیت کو ختم کردیا تھا۔

یہ پیشرفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی تھی جب مقررہ دن سے 2 روز بعد بھی پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش نہیں کیا جا سکا تھا۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کے دستخط سے جاری ہونے والے آرڈیننس میں متعدد تبدیلیاں کی گئیں اور پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے قواعد و ضوابط میں تبدیلی کی گئی۔

نوٹی فکیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا طریقہ کار تبدیل کردیا گیا جس کے تحت جب بھی گورنر، اسپیکر یا حکومت پنجاب کے سیکریٹری اجلاس طلب کریں گے تو محکمہ قانون و پارلیمانی امور اسمبلی میں اجلاس طلب کرنے کے حوالے سے نوٹی فکیشن جاری کریں گے۔

نوٹی فکیشن کے مطابق پنجاب سیکریٹریٹ سروس ایکٹ 2019 کے نویں حصے کے ساتھ ساتھ دو مزید ایکٹ بھی ختم کردیے گئے۔

ان تبدیلیوں کے بعد پنجاب اسمبلی کی خودمختار حیثیت ختم کردی گئی اور اب اسمبلی، وزارت قانون کے ایک ادارے کے طور پر کام کرے گی جبکہ سیکریٹری پنجاب اسمبلی کو وزارت قانون کے ماتحت کردیا گیا۔

ایسا ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ صوبائی اسمبلی کے بیک وقت 2 بجٹ اجلاس ہو ئے۔

اس معاملے پر رد عمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے کہا کہ اسمبلی کا جو مذاق بنا دیا گیا اس کو زیادہ برداشت نہیں کیا جا سکتا، اس معاملے پر ہمیں عدلیہ سے رجوع کرنا ہوگا اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرکے انہیں ڈی سیٹ کروائیں گے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہری پرویز الہٰی کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما راجا بشارت نے کہا کہ قانونی طور پر حکومت مضبوط ہوتی تو کبھی ایوان اقبال نہ جاتی۔

اسپیکر پنجاب پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ اجلاس پہلے سے چل رہا ہو تو نیا اجلاس نہیں ہو سکتا، پنجاب اسمبلی ایک ادارہ ہے، آرڈیننس کے ذریعے پنجاب اسمبلی کو کمزور کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس سیکرٹری ہے اور نہ ہی اسٹاف ہے، ایسا غیر جمہوری کام کیا ہے جو کبھی کسی نے نہیں کیا، اسپیکر کے ہوتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا، گورنر پنجاب کے پاس اختیار نہیں تھا جو انہوں نے استعمال کیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما محمود الرشید کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گےاور ڈپٹی اسپیکر کو ڈی سیٹ کروائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کے نوٹس میں لائے ہیں کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہ کریں جبکہ گورنر کے اقدامات غیرقانونی ہیں، ہم نے اسمبلی میں آرڈیننس کو ختم کر دیا اب اس کا وجود نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں