دفتر خارجہ نے اودے پور میں قتل کو پاکستانی تنظیم سے جوڑنے کی بھارتی کوشش مسترد کردی

اپ ڈیٹ 29 جون 2022
دفتر خارجہ نے کہا کہ اس طرح کی بدنیتی پر مبنی کوششیں بھارت یا بیرون ملک کے لوگوں کو  گمراہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گی— فائل فوٹو: اے ایف پی
دفتر خارجہ نے کہا کہ اس طرح کی بدنیتی پر مبنی کوششیں بھارت یا بیرون ملک کے لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گی— فائل فوٹو: اے ایف پی

دفتر خارجہ نے بھارتی شہر اودے پور میں مبینہ ہندو درزی کے قتل کے ملزمان کا پاکستانی تنظیم کے ساتھ تعلق جوڑنے کے بھارتی الزامات کو واضح طور پر مسترد کر دیا۔

دفتر خارجہ نے ایک بیان میں بتایا کہ بھارتی میڈیا کے ایک حصے میں اودے پور میں قتل کیس کی تحقیقات کے حوالے سے رپورٹس دیکھی ہیں جن میں بھارتی ملزمان کو پاکستان کی ایک تنظیم سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔

بیان میں بتایا گیا کہ ہم ایسے کسی بھی الزام کو مسترد کرتے ہیں، جو بی جے پی۔آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریے کے تحت بھارتی حکومت کی پاکستان کو بدنام کرنے کی روایتی کوشش ہے، وہ پاکستان پر انگلیاں اٹھا کر اپنے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ اس طرح کی بدنیتی پر مبنی کوششیں بھارت یا بیرون ملک لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گی۔

واضح رہے کہ دو مسلمانوں کی جانب سے ہندو درزی کے مبینہ قتل کے بعد بھارتی شہر اودے پور میں ہزاروں پولیس کو تعینات کرکے موبائل انٹرنیٹ سروس کو معطل کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: اودے پور میں ہندو درزی کے قتل کے بعد حالات کشیدہ، جزوی کرفیو نافذ

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق مغربی بھارت کے شہر اودے پور میں ایک شخص کا سر تن سے جدا کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جزوی کرفیو نافذ ہے، تاکہ ممکنہ فرقہ وارانہ تشدد سے بچا جاسکے۔

راجستھان کی ریاست کے دیگر علاقوں میں بھی موبائل انٹرنیٹ سروس کو منقطع کر دیا گیا ہے اور مقامی حکام نے چار یا اس سے زیادہ افراد کے مجمع لگانے پر ایک مہینے کے لیے پابندی عائد کردی ہے۔

مارے جانے والے آدمی کو درزی بتایا جارہا ہے جس نے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ترجمان نوپور شرما کے پیغمبرِ اسلام ﷺ کے خلاف توہین آمیز تبصرے کی حمایت میں سوشل میڈیا پر حالیہ پوسٹ شیئر کی تھی۔

نوپور شرما کے مئی کے آخر میں ٹی وی مباحثے کے دوران تبصرے نے غم و غصے کو جنم دیا تھا، جس کے سبب بھارت کے کچھ حصوں میں پُرتشدد واقعات ہوئے تھے اور پوری اسلامی دنیا میں اس کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارت: توہین آمیز بیان پر مظاہرہ کرنے والوں کےخلاف کریک ڈاؤن، مغربی بنگال میں ایمرجنسی نافذ

مسلم ممالک کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آنے کے بعد حکمراں جماعت بی جے پی نے نوپور شرما کو ان کے ریمارکس پر معطل کردیا تھا۔

ویڈیو میں مبینہ قتل کو دکھایا گیا ہے جبکہ دو افراد کو بڑے چاقو لہراتے دیکھا جاسکتا ہے، انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو قتل کرنے کی بھی دھمکیاں دیں۔

وزیرِ اعلیٰ راجستھان اشوک گہلوت نے کہا کہ قتل میں ملوث دونوں ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور ہم سخت سزا اور جلد انصاف کو یقینی بنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ واقعے کی ویڈیو شیئر نہ کریں جس کا مقصد معاشرے میں انتشار پھیلانا ہے۔

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ٹوئٹ میں کہا کہ کسی بھی تنظیم کے ملوث ہونے اور بین الاقوامی تعلق کے حوالے سے مکمل چھان بین کی جائے گی۔

بھارت میں مسلم تنظیموں نے اس قتل کی مذمت کی ہے لیکن وشوا ہندو پریشاد گروپ کے سریندرا کمار نے کہا کہ متعدد مسلمان رہنماؤں نے ہندو عقیدے کی توہین کی ہے۔

انہوں نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ تمہیں اس دن سے ڈرنا چاہیے جب ہندو اس توہین کا جواب اسی انداز سے دینا شروع کریں گے۔

دوسری طرف مقتول درزی کہنیا لال تیلی کی آخری رسومات سے قبل سینکڑوں لوگ اس کے گھر کے باہر جمع ہوئے اور احتجاج کیا اور قتل کے خلاف مذہبی نعرے لگائے۔

یہ بھی پڑھیں : گستاخانہ بیان کے خلاف بھارت میں پرتشدد مظاہرے، 2 افراد جاں بحق

موٹرسائیکلوں اور کاروں پر سوار لوگوں نے نعرے لگائے اور ملزمان کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

مقتول کی بیوہ نے کہا کہ ان کو پھانسی پر لٹکاؤ، ان کو پھانسی پر لٹکاؤ، میرا شوہر چلا گیا۔

مقتول درزی کے ایک اور رشتے دار نے کہا کہ اگر قانون کچھ نہیں کرسکتا تو انہیں ہمارے حوالے کریں، ہم انہیں قتل کریں گے۔

واضح رہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے 23 اکتوبر 2020 کو متنازع بیان دیا تھا اور کہا تھا کہ فرانس ’گستاخانہ خاکوں‘ سے پیچھے نہیں ہٹے گا جس پر پوری مسلم دنیا میں غم و غصہ کا اظہار کیا گیا تھا۔

فرانس میں 17 اکتوبر کو ایک حملے میں چیچن مہاجر نے اس استاد کا سر قلم کردیا تھا، جس نے اسکول میں بچوں کو ’گستاخانہ خاکے‘ دکھائے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں