'ایمن الظواہری کو نشانہ بنانے والا ڈرون کرغزستان سے اڑا'

اپ ڈیٹ 04 اگست 2022
افغانستان کے وسطی ایشیائی ہمسایہ ممالک امریکا کو یہ مدد فراہم کر رہے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
افغانستان کے وسطی ایشیائی ہمسایہ ممالک امریکا کو یہ مدد فراہم کر رہے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کابل میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو ہلاک کرنے والے امریکی ڈرون کو ممکنہ طور پر کرغزستان کے ایک ایئربیس سے لانچ کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیاکہ حملہ شمالی کرغزستان میں ماناس میں امریکی ٹرانزٹ سہولت گانسی ایئربیس سے کیا گیا۔

امریکی محکمہ دفاع کے مطابق گانسی کرغزستان میں بشکیک بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایک سابق امریکی فوجی اڈہ ہے، جسے امریکی فضائیہ چلا رہی تھی اور جون 2014 میں اسے کرغیز فوج کے حوالے کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کابل میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک

تاہم امریکی انتظامیہ ابھی تک یہ بتانے سے انکار کر رہی ہے کہ ڈرون کہاں سے ٹیک آف کیا گیا اور اس نے کون سا راستہ استعمال کیا۔

محکمہ دفاع نے صرف ایک مختصر بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ایمن الظواہری کو کابل کے مرکز میں ایک اوور دی ہورائزن آپریشن میں مارا گیا، جہاں وہ طالبان کے مہمان کے طور پر مقیم تھے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اتوار کو کابل کے وقت کے مطابق صبح 6:18 پر ایک درست، انسداد دہشت گردی کی کارروائی میں دو ہیلی فائرز میزائلوں سے گھر کو نشانہ بنایا گیا۔

امریکا کے سب سے بڑے ریڈیو نیوز نیٹ ورک، نیشنل پبلک ریڈیو (این پی آر) نے نشاندہی کی کہ امریکی حکام یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ڈرون کو کہاں سے لانچ کیا، 'لیکن امریکا کے پاس اس علاقے میں اب کوئی فوجی اڈہ نہیں ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طیارے نے اپنے ہدف تک پہنچنے سے پہلے طویل فاصلہ طے کیا ہوگا'۔

مزید پڑھیں: امریکا نے افغانستان میں ایمن الظواہری کی کھوج کیسے لگائی؟

واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی امور کے اسکالر مائیکل کوگل مین نے نشاندہی کی کہ ڈرون حملے نے اس حملے میں پاکستان کے ممکنہ کردار پر امریکا میں 'بہت زیادہ بحث' دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ' میں اس کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کروں گا لیکن اس بات پر بھی مکمل یقین نہیں کروں گا کہ کسی قسم کا کوئی کردار نہیں تھا'۔

مائیکل کوگل مین نے اپنی توجہ دو ممکنہ صورتوں پر مرکوز کی جس میں فضائی حدود اور انٹیلی جنس شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جغرافیہ جھوٹ نہیں بولتا، اگر یہ ڈرون خلیج میں امریکی اڈے سے لانچ کیا گیا تو یہ ایران کے اوپر سے پرواز نہیں کر سکے گا، اگر آپ تیز رفتار آپریشن شروع کر رہے ہیں تو وسطی ایشیا کے اوپر سے اڑان بھرنا بہت مشکل ہے اور اسے ہٹانا مشکل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: القاعدہ سربراہ کو پناہ دے کر طالبان نے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کی، امریکا

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس صورت میں پاکستانی فضائی حدود انٹیلی جنس سپورٹ کے لیے انتہائی مطلوبہ آپشن معلوم ہوتی ہے اور امریکی حکام نے اشارہ دیا ہے کہ اس آپریشن کی منصوبہ بندی اور نگرانی میں مہینوں کا عرصہ لگا۔

مائیکل کوگل مین نے کہا کہ 'کیا امریکا بغیر زمینی موجودگی کے یہ سب کچھ اکیلے کر سکتا ہے؟ اگر پاکستان نہیں تو 'کچھ متعصب طالبان ارکان نے یہ معلومات امریکا کو فراہم کی ہوں گی'۔

تاہم وہ اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ افغانستان کے وسطی ایشیائی ہمسایہ ممالک امریکا کو یہ مدد فراہم کر رہے ہیں۔

دوسری جانب بی بی سی کی ایک رپورٹ میں سی آئی اے کے ڈرون حملے کے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی مدد کے بغیر کیے جانے کے امکان کا پتا لگایا گیا۔

مزید پڑھیں: ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد امریکی مسافروں کو تشدد کے زیادہ خطرات ہیں، امریکی محکمہ خارجہ

رپورٹ میں کہا گیا کہ 'جب ڈرون سے میزائل لانچ کیا جاتا ہے، تو اسے چلانے والا آپریٹر، کبھی کبھی ایک ایئر کنڈیشنڈ کنٹرول روم میں امریکی براعظم جتنا دور بیٹھا ہوتا ہے، ہدف کی لائیو ویڈیو اسٹریم دیکھتا ہے، جسے ڈرون کا کیمرا سیٹیلائٹ کے ذریعے فیڈ بھیجتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 'اسکرین پر ٹارگٹنگ بریکٹ کے سیٹ کا استعمال کرتے ہوئے، کیمرا آپریٹر ہدف کو لاک کرنے اور اس کی جانب لیزر کی نشاندہی کرنے کے قابل ہوتا ہے، ایک بار جب میزائل داغا جاتا ہے، تو یہ ہدف کو نشانہ بنانے تک اس لیزر کے راستے پر چلتا ہے'۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ امریکا نے ڈرون سے فائر کیے جانے والے ہیلی فائرز ہوا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل کا استعمال کیا جو 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد دہائیوں سے بیرون ملک امریکی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کا حصہ ہے۔

بی بی سی کا کہنا تھا کہ میزائل کو مختلف پلیٹ فارمز سے فائر کیا جا سکتا ہے، جس میں ہیلی کاپٹر، زمینی گاڑیاں، بحری جہاز اور فکسڈ ونگ ہوائی جہاز یا ایمن الظواہری کے معاملے میں، بغیر پائلٹ کے ڈرون کا آپشن بھی شامل ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں