چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی جانب سے حال ہی میں وفاقی حکومت اور بار کے کردار کے بارے میں تحفظات کے اظہار کے بعد بار رہنما اپنے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی میں سنیارٹی کا اصول سب سے بنیادی معیار ہونا چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس کے بیان پر باضابطہ ردعمل دیتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت کی کہ بار نے ہمیشہ جمہوری اقدار کے فروغ، بینچ کی غیر جانبداری اور شفافیت برقرار رکھنے اور ملک میں عدلیہ کی آزادی اور نظام انصاف کی بہتری کے لیے تعمیری کردار ادا کیا ہے۔

وزیر قانون نے زور دیا کہ اگر بار نے عدلیہ کے کسی معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے تو ایسا صرف عدالتوں اور عدلیہ کی بہتری اور قانون کی بالادستی کے لیے کیا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر محمد احسن بھون نے وضاحت کی کہ بار نے کبھی غیر جانبدارانہ کردار ادا نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: دوست مزاری کی رولنگ کالعدم کرنے پر سخت ردعمل آیا مگر تحمل کا مظاہرہ کیا، چیف جسٹس

وہ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی اور ایس سی بی اے کے مشترکہ ہاؤسنگ پروجیکٹ پارک روڈ ہاؤسنگ اسکیم میں ایس سی بی اے کے ممبران میں پلاٹ الاٹمنٹ لیٹرز کی تقسیم کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔

دریں اثنا سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے خیال ظاہر کیا کہ نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس کی تقریر نے وزیر قانون کی جانب سے ایک محتاط ردعمل کا اظہار کیا جنہوں نے اس 'حکومتی ردعمل' کی تائید یا تردید نہیں کی جس کے سبب 28 جولائی کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے 5 ججوں کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے بلایا گیا اجلاس لاحاصل رہا۔

پیر کو سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال 23-2022 کے آغاز کے موقع پر چیف جسٹس نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا عدالت کے ایک منفی فیصلے کے ردعمل میں وفاقی حکومت کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے سامنے ان کے تجویز کردہ ججوں کی حمایت سے انکار کا اقدام جائز ہو جاتا ہے؟

جسٹس عمر عطا بندیال کے خطاب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے صدر ایس سی بی اے احسن بھون نے اس بات پر زور دیا کہ ججوں کی تقرری سنیارٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ میرٹ پر کی جانی چاہیے اور اس کے لیے انتخاب کا ایک طے شدہ معیار ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: اراکین کے ڈسپلن سے ہٹ کر ووٹ دینے سے سیاسی پارٹی ’ٹی پارٹی‘ بن جائے گی، چیف جسٹس

وزیر قانون نے بااختیار حلقوں پر زور دیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے روایتی کردار کو دیکھتے ہوئے انہیں بینچ اور بار کے درمیان سازگار ماحول برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزارت قانون نے وکلا کے تحفظ کے ایکٹ کا مسودہ تیار کرنے کے لیے تمام بار کونسلز کے ساتھ مشاورت مکمل کر لی ہے جسے 2 ماہ میں پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

دریں اثنا سابق صدر ایس سی بی اے حامد خان نے خیال ظاہر کیا کہ بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کو کسی سیاسی جماعت یا حکومت سے منسلک ہونے کی بجائے اپنی آزادی کا دفاع کرتے ہوئے بار کے قوانین کے مطابق کام کرنا چاہیے۔

تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کسی جج کی ترقی یا تعیناتی من مانے طریقے سے نہ ہو اور اس مقصد کے لیے سینیارٹی کو ایک اہم اصول سمجھا جانا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں