وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ڈینجرس اور ڈفر والی بات دراصل عاصمہ جہانگیر کے ایک پرانے بیان کا حوالہ تھا، بطور وفاقی وزیر میرا اس کو دہرانا نامناسب تھا۔

بلاول بھٹو نے گزشتہ روز عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میں پاکستان کا وزیر خارجہ بن کر آج ان سے مل رہا ہوتا تو میرے خیال میں سب سے پہلے وہ مجھ سے پوچھتیں کہ بلاول آپ ڈینجرس اور ڈفر سے ڈیل کرکے تو وزیر خارجہ نہیں بنے؟ میں خوشی سے عاصمہ جہانگیر صاحبہ کو یقین دلاتا کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔

اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گزشتہ روز عاصمہ جہانگیر کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں لگنے والے نعرے نامناسب تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سب نے مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے اور ہم سب اس کا شکار رہے ہیں، عام شہری، میرا خاندان اور ہمارے سپاہی دہشت گردی سے متاثر ہوئے۔

بلاول بھٹو زرداری کا مزید کہنا تھا کہ پاک فوج نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے صف اول میں اپنا کردار ادا کیا، پاک فوج آج تک دہشت گردی کے نشانے پر ہے اور دہشت گردوں کا سامنا کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امید کرتے ہیں گیٹ نمبر 4 کا رخ کرنے کے بجائے اپوزیشن پارلیمان میں ہوگی، بلاول بھٹو

انہوں نے کہا کہ نعرے بازی کرتے ہوئے ہمیں سوچنا چاہیے کہ جو جوان دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے قربانیاں دے رہے ہیں، انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے۔

چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیم نے بھی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں نعرے لگائے اور میں نے اس کا بھی جو جواب دیا، وہ نامناسب تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ایک وفاقی وزیر ہوں، مجھے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں نعروں کا بہتر انداز میں ردعمل دینا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان نوجوان قیادت کے لیے تیار ہے، عمران خان کو ریٹائرمنٹ پر بھیجیں گے، بلاول بھٹو زرداری

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ڈینجرس ڈفر والی بات دراصل عاصمہ جہانگیر کے ایک پرانے بیان کا حوالہ تھا، بطور وفاقی وزیر میرا اس کو دہرانا نامناسب تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد سے ادارے متنازع سے آئینی کردار کی جانب خود کو منتقل کررہے ہیں جس کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں، میں اداروں کی جانب سے متنازع آئینی کردار کی جانب خود کو منتقل کرنے کے عمل کے دوران کوئی غلط فہمی پیدا نہیں کرنا چاہتا۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سینیئر صحافی ارشد شریف کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کینیا میں پاکستان کا سفارت خانہ ارشد شریف کے قتل کا معاملہ دیکھ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف انسانی حقوق بلکہ آزادی اظہار رائے پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ آگے جو بھی وزیر اعظم آتا ہے، عدالت کے دروازوں کو کھٹکھانے کے بجائے اور گیٹ نمبر 4 کی طرف رخ کرنے کے بجائے ہم امید رکھتے ہیں کہ اپوزیشن پارلیمان میں ہوگی، اور اگر کسی وزیراعظم کا احتساب کرنا ہے تو وہ جمہوری طریقے سے ہو گا۔

مزید پڑھیں: جوہری اثاثوں پر جو بائیڈن کا بیان، امریکی سفیرکو دفتر خارجہ طلب کرکے ڈیمارش کیا گیا

بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ ہم نے سلیکٹڈ وزیراعظم کو جمہوری طریقے سے گھر بھیجا، اس سے پہلے وزرائے اعظم کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، ماضی میں یا تو جلا وطن کیا گیا، یا پھر پھانسی کے پھندے پر چڑھنا پڑا یا پھر خودکش حملوں میں شہید ہوئے، یا عدالت سے فیصلہ آیا یا پھر گیٹ نمبر 4 سے فیصلہ آیا اور اس نے وزیر اعظم کا بندوبست کیا، لہٰذا یہ پاکستان کے جمہوری نظام کے لیے ایک ترقی ہے کہ پارلیمان کے ذریعے وزیر اعظم کو گھر بھیجا۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر کی یاد میں چار سال سے یہ سلسلہ جاری ہے، وہ پاکستان کے ترقی پسند وکلا، سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے ایک رول ماڈل تھیں، وہ میرے لیے بھی ایک رول ماڈل ہوتی تھیں، وہ وقتاً فوقتاً میری رہنمائی بھی کرتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر میں آج پاکستان کا وزیر خارجہ بن کر آج ان سے مل رہا ہوتا تو میرے خیال میں سب سے پہلے وہ مجھ سے پوچھتیں کہ بلاول آپ ڈینجرس اور ڈفرسے ڈیل کرکے تو وزیر خارجہ نہیں بنے؟ میں خوشی سے عاصمہ جہانگیر صاحبہ کو یقین دلاتا کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں