آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی، حکومت تمام شرائط پوری کرنے کو تیار

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2023
سیکرٹری خزانہ حمید یعقوب نے باضابطہ طور پر آئی ایم ایف مشن کو پاکستان کا درورہ کرنے کے لیے لکھ دیا — رائٹرز:فائل فوٹو
سیکرٹری خزانہ حمید یعقوب نے باضابطہ طور پر آئی ایم ایف مشن کو پاکستان کا درورہ کرنے کے لیے لکھ دیا — رائٹرز:فائل فوٹو

پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی بحالی کے لیے اس کی 4 بڑی شرائط قبول کرنے پر رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے جلد از جلد اپنا وفد پاکستان بھیجنے کی درخواست کی ہے جو طویل عرصے سے تاخیر کا شکار ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈان سے بات کرتے ہوئے ایک سرکاری عہدیدار نے کہا کہ ’ جنیوا کانفرنس کے دوران بات چیت کی بنیاد پر ہم نے 4 اہم شرائط پر اپنا کام مکمل کرلیا ہے۔’

سرکاری افسر نے کہا کہ ’آئی ایم ایف پروگرام میں کی گئی اصلاحات پر عملدرآمد کرنے کے لیے پُرعزم ہیں اور ہم مجوزہ آئی ایم ایف مشن کے ساتھ بات چیت کے دوران تمام فیصلوں کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘

سیکریٹری خزانہ حمید یعقوب نے باضابطہ طور پر آئی ایم ایف مشن کو پاکستان کا درورہ کرنے کے لیے لکھ دیا ہے۔

آئی ایم ایف شرائط کو نافذ کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بات چیت میں شامل ایک اور سرکاری افسر نے کہا کہ آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکج آج پاکستان کو درپیش تمام مشکلات کا حل ہے اور ڈیفالٹ سے نکلنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے، جس کے لیے آئی ایم ایف مشن کو ساتھ بیٹھ کر تمام چیزیں طے کرنے کی گزارش کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف مشن کو راضی کرنے کے لیے مطلوبہ اقدامات نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ تمام فیصلوں میں اہم چیلنجز شامل تھے اور جب تک جوابی اقدامات کے ساتھ توازن برقرار نہ رکھا جائے تو پہلے سے ہی تباہی کا شکار معیشت کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

سرکاری افسر نے کہا کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں اضافے سے قرض کی لاگت بڑھ سکتی ہے جبکہ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے سے غربت میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ تقریباً 70 سے 80 ارب ریونیو ان بینکوں سے وصول کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے جن کو زرمبادلہ سے بہت منافع ہوا تھا لیکن باقی 150 ارب روپے درآمدات پر فلڈ لیوی جیسے دیگر ذرائع سے پورے کیے جائیں گے۔   سرکاری افسر نے مزید کہا کہ اس لیے شاید حکومت ایسے اقدامات کرے جو آئی ایف ایم کی نظر میں ہدف مکمل کرنے کے لیے ناکافی ہوں اور اضافی اقدامات درکار ہوں جو شاید مختصر مدت میں قابل عمل نہ ہوں۔

ایک اور سرکاری عہدیدار نے کہا کہ جب آئی ایم ایف مشن اسٹاف لیول معاہدہ مکمل کرنے کے لیے پاکستان آیا تھا تو حکومت نے انہیں کہا تھا کہ ہم جنیوا میں سائیڈلائن میں کی گئی بات چیت کے پیش نظر فیصلے کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے یہ بھی توقع ہے کہ وہ حالیہ مسائل اور سیلاب کے بعد کی صورتحال سے پیدا ہونے والے معاشی چیلنجز کے پیش نظر اپنی شرائط میں کچھ لچک دکھائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کے 4 بڑے مطالبات تھے، جن میں مارکیٹ کی بنیاد پر شرح تبادلہ، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ، اضافی ٹیکس عائد کرنا تاکہ سیلاب کے اخراجات کے لیے ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ پروگرام کے اہداف کے اندر مالیاتی خسارے پر قابو پایا جاسکے۔

حکومتی اراکین نے کہا کہ آئی ایم ایف کی تمام بڑی شرائط کا نفاذ عام لوگوں پر نہیں ہوگا اور مخیر حضرات پر اس کا بوجھ پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لیے ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے، اگر مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو آئی ایم ایف مشن واپس جاکر پیش رفت نہ ہونے کی رپورٹ دے گا مگر پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو پیغام دیا تھا کہ ہم اصلاحات اور شرائط پر عملدرآمد کرنے کے لیے تیار ہیں اور دیگر مسائل کو بھی حل کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام اس صورت میں جاری رکھنا چاہتی ہے کہ اس کے لیے سخت اقدامات کا بوجھ عام شہریوں پر نہ پڑے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں