پشاور: پی ٹی آئی کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات 90 دن میں کرانے کیلئے ہائی کورٹ میں درخواست

اپ ڈیٹ 31 جنوری 2023
عدالت سے استدعا کی گئی کہ متعلقہ اداروں کو 90 دن کے اندر الیکشن کرانے کا پابند کرے— فائل فوٹو بشکریہ پشاور ہائی کورٹ ویب سائٹ
عدالت سے استدعا کی گئی کہ متعلقہ اداروں کو 90 دن کے اندر الیکشن کرانے کا پابند کرے— فائل فوٹو بشکریہ پشاور ہائی کورٹ ویب سائٹ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل اور نگراں حکومت کے قیام کے بعد 90 دن میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن کرانے کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

تحریک انصاف کے صوبائی رہنماؤں کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں الیکشن کرانا لازمی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ کے لیے گورنر خیبر پختونخوا کو خط لکھا لیکن گورنر نے ابھی تک تاریخ نہیں دی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن کے اندر الیکشن کرانا نگران حکومت کی ذمہ داری ہے لہٰذا عدالت اس سلسلے میں اپنا کردار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو 90 دن کے اندر الیکشن کرانے کا پابند کرے۔

سابق صوبائی وزیر اور پی ٹی آئی کے رہنما عاطف خان نے ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے اور بروقت الیکشن کرانا آئینی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں الیکشن کرانے ہوتے ہیں لیکن اب تک گورنر نے تاریخ نہیں دی جو غیر آئینی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پتا نہیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) الیکشن سے کیوں بھاگ رہی ہے، نگران کابینہ غیر سیاسی ہوتی ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ یہ پی ڈی ایم کے اراکین ہیں۔

سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پشاور دہشت گری کا واقعہ بہت افسوس ناک ہے اور پی ٹی آئی کو اس پر تشویش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب سے ہماری حکومت کا خاتمہ کیا گیا اس کے بعد حالات خراب ہوگئے ہیں، سیکیورٹی اداوں نے بڑی مشکل سے امن و امان قائم کیا تھا لیکن اب پھر اس کو خراب کیا جارہا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہ کہ پی ڈی ایم اب کسی طرح الیکشن کو التوا کا شکار کرنا چاہتی ہے، یہ غیر آئینی کام کر رہے ہیں اور الیکشن سے بھاگ رہے ہیں، کبھی کہتے ہیں معاشی مسائل ہیں اور کبھی امن وامان کا کہتے ہیں۔

یاد رہے کہ سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے 17 جنوری کو آئین کے آرٹیکل 112 (1) کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کردی تھی۔

محمود خان نے اپنی ٹوئٹ میں سمری بھیجنے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ دو تہائی اکثریت حاصل کرکے قائد عمران خان کو دوبارہ وزیراعظم بنائیں گے۔

گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے 18 جنوری کو سابق وزیر اعلیٰ کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق ارسال کی گئی سمری پر دستخط کردیے تھے۔

اعظم خان کو صوبے کا نگراں وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا اور 26 جنوری کو 15 رکنی نگراں کابینہ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں