کیماڑی میں اموات زہریلی گیس کے اخراج سے ہوئیں، ماہرین کا اصرار

اپ ڈیٹ 03 فروری 2023
فیکٹریاں لوہے کی پیداوار کی وجہ سے نقصان دہ گیسز خارج کرتی ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز
فیکٹریاں لوہے کی پیداوار کی وجہ سے نقصان دہ گیسز خارج کرتی ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز

سانحہ کیماڑی کی ناقص تفتیش جاری ہے اور حکام لیبارٹری رپورٹ کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں جو حتمی طور پر اس بات کی وضاحت کر سکتی ہے کہ اس علاقے میں گزشتہ ماہ 19 جانیں کیسے ضائع ہوئیں۔

مذکورہ رپورٹ 3 سالہ عبدالحلیم کے پوسٹ مارٹم کے دوران لیے گئے نمونوں کے تفصیلی کیمیائی معائنے سے متعلق ہے جو فی الحال کچھ نجی لیبارٹریز میں زیر عمل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ متاثرہ بچے کے والد کی جانب سے ایف آئی آر درج کروانے کے بعد پوسٹ مارٹم کیا گیا جس میں انہوں نے بیٹے کی غیر فطری موت کا الزام لگایا تھا۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے ابتدائی نتائج جس کی ایک نقل ڈان کے پاس دستیاب ہے وہ بچے کی بیماری کے بارے میں پریشان کن تفصیلات فراہم کرتی ہے۔

پانچ سینئر ماہرین کی تیار کردہ اس رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر 31 جنوری کی صبح بچے کی موت ’فیکٹریوں کے زہریلے دھوئیں کی وجہ سے ہوئی جیسا کہ پولیس رپورٹس میں بتایا گیا تھا‘۔

سوگوار خاندان نے صحت کے حکام کو بتایا تھا کہ بچے کو اپنی موت سے 3 سے 4 روز قبل کھانسی اور بخار ہوا تھا اور اس نے کھانا بھی چھوڑ دیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس رات بچے کو سانس لینے میں دشواری ہوئی اور چند ہی منٹوں میں وہ دم توڑ گیا۔

اپنے ریمارکس میں ماہرین نے کہا کہ ’دونوں گھٹنوں، ٹخنوں کی اندرونی سطح، دونوں پیروں کے اوپر، انگلیوں اور نیچے کی سطحوں پر متغیر شدت کے سیاہ ذخائر دیکھے گئے، جنہیں بار بار دھونے کے باوجود دور نہیں کیا جاسکا۔

ہسٹوپیتھولوجی اور کیمیائی تجزیہ کے لیے دائیں ٹخنے سے مکمل جلد (بغیر دھوئے) ہٹائی گئی۔

رپورٹ کے مطابق جسم کے کئی حصوں بشمول گردوں، پھیپھڑوں اور جگر سے خون کے ساتھ ساتھ ٹشوز کے نمونے بھی تجزیے کے لیے بھیجے گئے ہیں اور موت کی وجہ کیمیائی تجزیہ، ہسٹوپیتھولوجی ٹیسٹ اور لیبز کی رپورٹ آنے تک محفوظ کرلی گئی ہے۔

تحقیقات میں نقائص

ذرائع نے بتایا کہ پہلے دن سے تحقیقات میں سنگین کوتاہیاں ہوئیں، مثال کے طور پر ماحولیاتی آلودگی کے شواہد/نشانات کو اکٹھا کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، جسے ابتدائی طور پر متعدد اموات کی وجہ کے طور پر اجاگر کیا گیا تھا۔

متعدد ذرائع سے جمع ہونے والی معلومات سے یہ بات سامنے آئی کہ جب میڈیا میں اموات کی خبریں آئیں تو محکمہ صحت ایک بھی تفصیلی پوسٹ مارٹم نہیں کر سکا، یوں ثبوت کا ایک اہم ذریعہ ضائع ہوا۔

دوسرا سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی نے زہریلے اخراج کا الزام لگانے والی فیکٹریوں کو سیل کرنے کے بعد ہوا کے معیار کے نمونے جمع کیے تھے، وہ بھی نجی لیبارٹری کے ذریعے جس کے لیے سیپا سے سالانہ سرٹیفکیشن درکار ہے۔

تیسرا یہ کہ فیکٹریوں کے استعمال اور پیدا ہونے والے مواد اور فضلے کا تجزیہ کرنے اور یہ دیکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ وہ انسانی زندگیوں کو کس طرح متاثر کر سکتے ہیں۔

کیس کی پیش رفت سے واقف ایک ذریعہ نے قریبی فیکٹریوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوہے کی پیداوار کی وجہ سے نقصان دہ گیسز خارج کرتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اہلکاروں کو خون کے نمونوں میں زہریلے مادوں کی موجودگی کی جانچ کرنی چاہیے تھی، جو بیمار آبادی کے ایک حصے سے جمع کیے گئے تھے اور تجزیہ کے لیے قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) بھیجے گئے تھے۔

اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار کرتے ہوئے سینئر پیتھالوجسٹ پروفیسر سید سراج الدولہ، جو اس کیس کی پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ زہریلے اخراج کی وجہ سے سانس کی شدید تکلیف ہوتی ہے جس کی وجہ سے اچانک بہت سے اموات ہوتی ہیں، خاص طور پر ایسے بچوں کی جن کی قوت مدافعت اور غذائیت کی سطح کم ہوتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں