سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہمیں آئین پاکستان کی اہمیت کو پہچاننا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے، میں اپنے اور اپنے ادارے کی طرف سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔

دستورِ پاکستان کے 50 سال مکمل ہونے پر قومی اسمبلی ہال میں منعقدہ کنونشن میں گفتگو کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں یہاں کوئی سیاسی تقریر کرنے حاضر نہیں ہوا بلکہ میں اپنے اور اپنے ادارے کی طرف سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، اللہ کے سائے کے بعد اس کتاب کا سایہ ہمارے سر پر ہے، ہمیں آئین پاکستان کی اہمیت کو پہچاننا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔

ایوان کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ سب کا سیاسی میدان ہے لیکن میں قانونی نقطہ نظر سے چیزوں کو دیکھتا ہوں، آپ ہم پر تبصرے اور تنقید کرسکتے ہیں، ہم نے تنقید سنی بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا اور آپ کا یعنی پارلیمان کا واحد مقصد لوگوں کی خدمت کرنا ہونا چاہئیں، ہمارا کام یہ ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق جلد فیصلے کریں، آپ کا کام ہے کہ ایسے قوانین بنائیں جو لوگوں کے لیے بہتر ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہاں آج بہت سی سیاسی باتیں بھی ہوگئیں جبکہ میں نے آنے سے پہلے پوچھا تھا کہ یہاں کوئی سیاسی باتیں تو نہیں ہوں گی، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں آج یہاں ہونے والی تمام باتوں سے اتفاق کرتا ہوں، آج آئین کے گولڈن جوبلی تھی، میں صرف اس کے جشن میں شرکت کے لیے آیا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی تحریک کے نتیجے میں پاکستان کی صورت میں مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک وجود میں آیا لیکن بدقسمتی سے اب ہم سے یہ شرف چھن گیا اور اب یہ شرف انڈونیشیا کے پاس ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم (غیرمسلموں کے لیے) ’اقلیت‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، مجھے یہ پسند نہیں ہے، وہ برابر کے شہری ہیں اور ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں آپ سب کے لیے ایک سوال چھوڑ رہا ہوں کہ اگر ہم اپنے آپ کو ماضی میں جج مولوی تمیزالدین اور ان ججز کی جگہ کھڑا کرکے سوچیں جنہوں نے اسمبلی کو بحال کیا تو پاکستان 2 ٹکڑے ہوتا؟

انہوں نے کہا کہ یہ بہت اچھی بات ہے کہ وزیراعظم نے 10 اپریل کو دستور کا قومی دن قرار دے دیا، میری چچی بھی اُس وقت اِس ایوان کا حصہ تھیں جب یہ آئین پیش کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس آئین میں لوگوں کے حقوق کا تذکرہ ہے، لوگوں کے بنیادی حقوق اس آئین کا سب سے اہم ترین حصہ ہیں، آئین کو اسکولوں میں پڑھانے کی قرارداد خوش آئند ہے، میری اہلیہ ایک امریکن اسکول میں ٹیچر تھیں جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کو امریکا کا آئین پڑھایا جاتا اور اس حوالے سے مشقیں کروائی جاتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ جب لوگ ووٹ اور آئین کا مطلب سمجھ جائیں گے تو ان کو اندازہ ہوگا کہ اس ریاست کی لگام ہمارے ہاتھ میں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس آئین میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کے آئین میں نہیں ہیں، مثلا آرٹیکل 10 اے کے تحت رائٹ آف انفارمیشن (معلومات کا حق)، آرٹیکل 19 کے تحت فریڈم آف پریس (آزادی صحافت) بھی ہمارے آئین ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنے ادارے کی جانب سے کہنا چاہوں گا کہ ہم بھی آئین کے محافظ ہیں، آپ سب نے اور میں نے بھی یہ حلف لیا ہے کہ ہم ہر قیمت پر آئین کا تحفظ اور دفاع کریں گے، اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو آپ مجھ پر ہر قسم کی تنقید کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں دوبارہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں آج جو سیاسی باتیں کی گئٰیں ان سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، ہوسکتا ہے کل کو آپ میں سے کوئی یہ کہے کہ ہم نے آپ کو بلایا اور آپ نے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا۔

ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ حالات اتنے مشکل ہوں گے، شہباز شریف

قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ اپوزیشن نے ایک سال قبل آئینی شق کو استعمال کر کے پاکستان کو مشکلات سے بچانے کی کوشش کی لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ حالات اتنے مشکل ہوں گے۔

دستورِ پاکستان کے 50 سال مکمل ہونے پر قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں منعقدہ کنونشن میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیرخاجہ بلاول بھٹو زرداری، پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شریک ہوئے۔

گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آج کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک بہت اہم دن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معزز حاضرین اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ 50 برس گزرنے کے باوجود اور 1973 کے آئین میں متعدد ترامیم کے باوجود یہ آئین آج بھی زندہ ہے۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ 50 برس پہلے پاکستان کے وہ سیاسی زعما جو اپنے اختلافات اور سیاسی نظریات کی بنیاد پر شاید نہ مل بیٹھتے لیکن پاکستان میں آئین کی حکمرانی، عدل و انصاف کے بول بالا کے لیے انہوں نے اپنے اختلافات ایک جانب کردیے اور مل بیٹھے۔

شہباز شریف نے کہا کہ انہوں نے جس اجتماعی بصیرت، خلوص اور دل کی گہرائی سے جو محنت کی اس کا ثمر آئین کی صورت میں نکلا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایسا تاریخی کارنامہ ہے کہ جو ہمیشہ سنہرے حرفوں میں یاد رکھا جائے گا، آج کا دن انتہائی اہم ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کس طرح 1955 میں نظریہ ضرورت کو ایجاد کیا گیا اور کس طرح ایک چیف جسٹس نے ایک ڈکٹیٹر کو بغیر پوچھے 3 سال کی رعایت دے دی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کو ری رائٹ بھی کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ سیاست دانوں میں خامیاں نہیں لیکن جس طرح 1973 آئین بنانے والے مل بیٹھے اور تاریخ رقم کی اس طرح پاکستان کی اپوزیشن نے ایک سال قبل آئین کی ایک شق کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو مشکلات سے بچانے کی کوشش کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ حالات اتنے مشکل ہوں گے، کسی نے کہا اتحادی حکومت ایک مہینہ نہیں چل سکتی اور آج ایک سال ہوگیا یہ اتحادی حکومت چل رہی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ مشکلات ہیں، غلطیاں بھی ہوں گی کوتاہیاں بھی ہوں گی لیکن جب آپ ٹھان لیں کہ مل کر کام کرنا معاملات کو چلانا ہے تو بڑے بڑے چیلنجز عبور ہوجاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین بنانے والوں کو میں سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے مشاورت کا راستہ بنایا اور پاکستان کو آئین دیا۔

انہوں نے کہا کہ ان تمام ترامیم کے باوجود اور کئی مرتبہ بڑے بڑے طوفان آئے لیکن یہ وہ آئین ہے کہ جس نے چاروں اکائیوں کو ایک لڑی میں پرو کر رکھا ہے۔

وزیراعظم نے میاں رضا ربانی اور ان کی کمیٹی کو مبارکباد پیش کی۔

شہباز شریف سے درخواست کروں گا کہ اپوزیشن سے مذاکرات کریں، آصف زرداری

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سابق صدر مملکت اور شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف علی زرداری نے کہا کہ میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا شاہد ہوں، بدقسمتی سے ہم نے جمہوریت بچانے کا جو خواب دیکھا تھا وہ پورا نہ ہوسکا اور یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سیاست میں مذہب کا استعمال نہیں کیا، میں نے کئی چیزوں کا مشاہدہ کیا اور بڑے اونچ نیچ کے مقام دیکھے ہیں، میرے پاس سارے راز ہیں، کچھ راز شیئر کر سکتا ہوں،کچھ شیئر نہیں کر سکتا، میں اپنی نسل کو ٹوٹا پاکستان چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، نسل کو پورا پاکستان دے کر جاؤں گا۔

ان کا کہنا تھا ڈائیلاگ کی اتھارٹی وزیراعظم کے پاس ہے لیکن شہباز شریف سے درخواست کروں گا کہ اپوزیشن سے مذاکرات کریں، اپوزیشن کو بھی مذاکرات کے لیے شہباز شریف کے پاس آنا ہو گا کیونکہ یہ وزیراعظم ہیں اور مذاکرات میں آنے سے پہلے شرائط نہ رکھی جائیں۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ہم آئین کے ساتھ کسی کو کھلواڑ کرنے نہیں دیں گے، کچھ دوست، دوستوں کو دشمن یا مخالف بنانا چاہ رہے ہیں ایسا نہیں ہو گا، جو ہم نے کہہ دیا ہے ویسا ہوگا۔

اُن کا کہنا تھا پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ کورٹ نے نوٹس بھیجا، میرے خلاف سو موٹو نوٹس ہوئے میں نے دیکھے ہیں، ہمارے خلاف پہلے بھی انٹریز ہوتی رہی ہیں، میری بہن کو رات 12 بجے اسپتال سے اٹھا کر جیل میں ڈالا گیا اس وقت کسی نے سو موٹو نہیں لیا۔

انہوں نے کہا کہ جب بینظیر بھٹو شہید ہوئیں تو ہم نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، آج کا صدر مانتا ہے کہ میں اگر کوئی دوسرا نعرہ لگاتا تو پاکستان نہیں بچتا۔

ان کا کہنا تھا ٹی ٹی پی کی تھریٹس مجھے بھی تھیں لیکن جہاں لوگ بلائیں گے جائیں گے پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا، ہم تو بلوچستان بھی جائیں گے اور خیبرپختونخوا بھی جائیں گے، ہم پاکستان کو بچاتے آئے ہیں، اب بھی بچائیں گے۔

دستور پاکستان کو نصاب میں شامل کرنے کی قرارداد منظور

آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کنونشن میں وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے دستور پاکستان کے بنیادی حقوق کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کی قرار داد پیش کی، جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

10 اپریل کو ہر سال قومی یومِ دستور منانے کا اعلان

ساتھ ہی وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں منعقدہ خصوصی کنونشن میں قرار داد پیش کی:

  • قرار داد میں کہا گیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی گولڈن جوبلی مناتے ہوئے یہ کنونشن قرار دیتا ہے کہ پاکستان کے دستور میں درج ہے کہ حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کے دیے ہوئے اس اختیار کوپاکستان کے عوام اپنےمنتخب نمائندوں کے ذریعے اللہ کی متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کریں گے۔
  • قرار داد کے مطابق 1973 کا آئین تنوع اور پاکستان کے اتحاد کا مظہر ہے کہ یہ صوبوں کی وحدت اوروفاق کے سیاسی اتحاد کو یقینی بناتے ہوئے ان کے حقوق و خود مختاری کو تسلیم کرتا ہے۔
  • قرار داد میں کہا گیا کہ یہ کنونشن ریاست کے اداروں پر زور دیتا ہے کہ 1973 کے آئین پر مکمل عملدرآمد کریں اور وہ تمام ضروری اقدامات کریں جن سے پاکستان کے عوام کے حقوق و مفادات کا تحفظ اور دفاع یقینی بنایا جاسکے۔
  • قرار داد میں 10 اپریل کو ’قومی یومِ دستور کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا جو ہر سال 1973 کے آئین کی منظوری کی یاد میں ملک بھر میں منایا جائے گا، یہ دن پاکستان کے عوام کو آئین اور ملک کے لیے اس کی اہمیت سے آگاہ کرے گا۔
  • قرار داد میں عہد کیا گیا کہ کنونشن پاکستان کے عوام کے روشن مستقبل کو یقینی بنانے اور اس کے اصولوں کی بالادستی کے لیے مل کر کام کرے گا۔

یادگارِ دستور کا سنگِ بنیاد

قبل ازیں آئین کے پچاس سال مکمل ہونے پرڈی چوک پر ’یادگار دستور‘ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

اس سلسلے میں منعقدہ تقریب میں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب سمیت ارکان پارلیمنٹ کی بڑی تعداد کے ہمراہ یادگار دستور کا سنگ بنیاد رکھا۔

اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے کہا کہ سی ڈی اے 14 اگست 2023 سے قبل ڈی چوک میں یادگار دستور مکمل کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ10اپریل 1973 کو متفقہ آئین کا منظور ہونا اہم قومی سنگ میل ہے۔

اسلامی، وفاقی، پارلیمانی اور جمہوری آئین کا خاکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی پہلی تقریر میں ہی دے دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں 14 اگست 1947 کے بعد 10 اپریل 1973 سب سے اہم دن تھا جب متفقہ آئین بنا، دنیا کے اکثر ممالک میں دستور کی یادگار موجود ہے۔

  راجا پرویز اشرف نے یادگار کا سنگ بنیاد رکھا—تصویر: اے پی پی
راجا پرویز اشرف نے یادگار کا سنگ بنیاد رکھا—تصویر: اے پی پی

انہوں نے کہا کہ میاں رضا ربانی اور ان کی پوری کمیٹی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے یادگار کی تعمیر کا فیصلہ کیا، امید ہے جلد اس یادگار کو مکمل کیا جائے گا۔

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ یادگار کے ڈیزائن کے لیے ملک گیر مقابلہ کروایا جائے گا اور آئین کے شایان شان ڈیزائن کی منظوری دی جائے گی، شاہراہ دستور پر یادگار کے ساتھ ایک باغ بھی تعمیر کیا جا رہا ہے جس سے شہریوں کو تفریح بھی میسر آئے گی ۔

انہوں نے مزید کہا کہ امید ہے کہ یادگار دستور میں آئین پر دستخظ کرنے والی تاریخی شخصیات کو مناسب انداز میں خراج تحسین پیش کیا جائے گا اور اس کے تقدس کو برقرار رکھا جائے گا۔

یہ ہمارے لیے تاریخی دن ہے، بلاول بھٹو زرداری

وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کے حوالے سے قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس سےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی منانے کے لیے موجود ہیں اور ہر پاکستانی کے لیے یہ تاریخی دن ہے اور میرے لیے بطور چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور بینظیر بھٹو کے بیٹے کی حیثیت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس دن 10 اپریل 1973 کو پاکستان کے آئین کا وفاقی، جمہوری، اسلامی اور متفقہ آئین کی بنیاد رکھی گئی اور پاکستان کی تاریخ میں بہت مشکلات کا سامنا کیا اور ہر مشکل وقت عوام، سیاسی، سماجی کارکنوں نے ان مسائل کا مقابلہ کیا، آمریت کا مقابلہ کیا، ایک نہیں بلکہ تین،تین آمروں کو بھگایا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان ایک زمانے میں زمین کے طور پر ٹوٹ بھی چکا تھا اور ہم اس بحران کا مقابلہ کرکے آگے بڑھے اور آج یہ وفاق موجود ہے، پاکستان اکٹھا ہے تو جو زنجیر چاروں صوبوں کو ملا کر پاکستان کی شکل میں ایک ملک اور ایک قوم پوری دنیا کو نظر آرہا ہے تو وہ زنجیر پاکستان کا آئین جو سارے صوبوں کو جوڑ کر پاکستان بناتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 10 اپریل ہمارے لیے ایسا تاریخی اور اہم دن ہونا چاہیے کہ ہمارے سلیبس میں یہ دن ہونا چاہیے اور ہماری آنے والی نسلوں کو اس دن کے بارے میں سکھانا چاہیے تاکہ ہر پاکستانی کو پتا ہو کہ 1947 میں جب پاکستان بنا تھا تو 10 اپریل 1973 کو ہمارے آئین کی بنیاد رکھی گئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ دن خوشی کا دن ہے، جمہور کی فتح کا دن ہے، 10 اپریل 1973 پاکستان کے آئینی سفر کے ابتدا کا دن ہے، آج ہماری 50 سال کی جدوجہد کی یوم تاسیس کا دن ہے، خوشی کے ساتھ یہ دن ہمارے لیے اس جمہوریت اور آئین کی خاطر دی ہوئی قربانیوں کو یاد کرنے کا بھی دن ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ 1973کے خالق ذوالفقار علی بھٹو نے غریب کو آواز دی اور عوام کو حکومت دینے کی سزا میں انہیں شہید کیا گیا، جنہوں نے آئین کا دفاع کرنا تھا انہوں نے اس جرم میں شامل تھے اور ایک آمر کو اس ملک پر مسلط کیا گیا، جس نے اس ملک میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کا بوجھ ڈالا اور اس کا مقابلہ ہم آج تک کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 10 اپریل 1986 کو لاہور میں بینظیر بھٹو کا تاریخی استقبال ہوا اور انہوں نے جمہوریت کی بحالی اور آئین کی بالادستی کا سفر شروع کیا، یہ سفر اور جدوجہد چلتی رہی اور بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں 1973 کے آئین کی بحالی کے لیے 30 سال جدوجہد کیا لیکن آمر ضیاالحق کے بعد ایک اور آمر آیا جنرل پرویز مشرف آیا اور اس نے جو بیج بوئے اس کے نتیجے میں ہم آج بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور آج بھی اسی قسم کی نفرت اور تقسیم کا مقابلہ کر رہےہیں۔

’ضیا اور مشرف دور کے کٹھ پتلی نفرت اور تقسیم کی سیاست کر رہے ہیں‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ جعلی سیاست دان جن کو ہر آمر کھڑا کرتا ہے، تو اس آمر نے کچھ جعلی سیاست دان اور کٹھ پتلیاں کھڑی کیں، آج ہر وہ شخص جو آمریت سے فائدہ لیتا ہے، جو غیرجمہوری دور سے فائدہ لیتا ہے وہ آج بھی ایک ہی جگہ جمع ہیں، ایک ہی پرچم تلے جمع ہیں، وہ تحریک انصاف میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہے ضیا دور کے ہوں یا مشرف دور کے وہ آج بھی اسی نفرت اور تقسیم کی سیاست کر رہے ہیں، غیرجمہوری سیاست پر چلتے آرہے ہیں، جب 2006 میں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت شہید بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاق پر دستخط کیے کہ ہم اپنے منشور پر الیکشن لڑیں گے، اپنی جماعتوں کی قیادت سنبھالیں گے۔

میثاق جمہوریت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قیادت نے کہا ہم ایک دوسرے کی مخالفت کریں گے مگر الیکشن میں مخالفت کریں گے جب ہم حکومت میں آتے ہیں تو ہماری مخالفت اس حد تک نہیں پہنچے کہ ہم ذاتی دشمنی پر پہنچ آئیں اور مخالفت کو اتنی جگہ نہیں دیں گے کہ اس کی وجہ سے دو بڑی جماعتیں آپس نہیں بیٹھ سکتیں، کسی اور کو فائدہ نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر اس دستاویز پر دستخط کیا تھا وہ یہ تھا کہ 70 کے اواخر کی پی این اے کی تحریک ہو یا سلیکٹڈ کا تماشا ہمارے ساتھ ہو جس کو 2011 میں کھڑا کیا گیا، جب سیاست دانوں، جمہوری قوتوں کے درمیان فقدان ہوتو اس کا فائدہ ضرور غیرجمہوری قوتیں اٹھاتی ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جب میثاق جمہوریت میں طے کیا کہ ہم 1973 کا آئین بحال کریں گے اور ایک دائرے میں رہ کر سیاست کریں گے تو اسی دوران وہی غیرجمہوری قوتیں اپنی سازشیں بنانا شروع ہوگئیں کہ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا اور پاکستان میں جمہور کو طاقت ملتی رہی تو غیرجمہوری قوتوں کے لیے نہ سیاست میں جگہ ہوگی، نہ پارلیمان اور نہ کاروبار میں جگہ ہوگی اورنہ بیوروکریسی میں اہم عہدے ملیں گے اسی لیے انہوں نے جمہوریت کے خلاف، اس میثاق جمہوریت کے خلاف سازش شروع کیا تھا۔

’ہماری کامیابی ہے کہ 1973 کا آئین بحال کیا‘

ان کا کہنا تھا کہ ہماری کامیابی ہے کہ ہم نے 1973 کے آئین کو بحال کیا، صوبوں کو حقوق دیا، صوبے کو شناخت دی اور وسائل کا مالک بنایا، سیاسی استحکام پیدا کیا جو پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا تھا کہ 2013 ایک جمہوری حکومت سے پرامن انتقال اقتدار دوسری جماعت کو ہو رہا تھا اور یہ پاکستان کی سیاست میں ایک ہم موقع تھا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں 5 سال سازشوں کے باوجود سیاسی استحکام ملا اور پھر 2008 سے 2018 تک سیاسی استحکام ملا تو معاشی استحکام بھی ملا تھا، اس کا مطلب یہ تھا کہ پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) چلتا رہا اور 10 سال میں پاکستان کے عوام کو ترقی ملی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ چیز کچھ قوتوں کے لیے تکلیف دہ تھا، جیسے ہم نے 30 سال جمہوریت کے لیے جدوجہد کیا تھا ایسے کچھ قوتیں ایسی ہیں جو جمہوریت کے خلاف سازشیں پکا رہے تھے، ان قوتوں کے لیے برداشت سے باہر تھا کہ پاکستان 1973 کے آئین کے تحت ایک جمہوری ملک بنے، ان سے یہ ہضم نہیں ہو رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری کامیابیوں کے جواب میں ہم پر ایک سلیکٹڈ راج مسلط کیا گیا اور اس کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ اس کٹھ پتلی کو اس کرسی میں بٹھایا جائے بلکہ 10 سال میں جو کامیابیاں ملی اس کو واپس کرنا تھا، ان کا مقصد تھا کہ 1973 کے آئین کو ریورس کرنا تھا، ان کا مقصد یہ تھا کہ 1973 کا آئین جو بنگلہ دیش کی جنگ کے بد اکٹھا رکھا تھااسی آئین کو ریورس کرنا تھا اور ایک بار پھر ون یونٹ قائم کرنا تھا۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ تین سال میں اس منصوبے کو ناکام بنایا اور کیسے ناکام بنایا وہ بھی 10 اپریل 2022 کو، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدالت، اسٹیبلشمنٹ یا کسی غیرجمہوری قوت کا کندھا استعمال نہیں کیا بلکہ جمہوری ہتھیار استعمال کرکے اس سلیکٹڈ ، نالائق اور مسلط کیا گیا وزیراعظم کو گھر بھیج دیا۔

’ہماری محنت کے ساتھ دوسری طرف سازشیں بھی چل رہی تھیں‘

انہوں نے کہا کہ جہاں ہماری محنت جاری رہی، وہ سازشیں بھی چلتی رہیں، وہ سازشیں ایک سال سے ملک میں چلتی رہی ہیں، ہمارا وزیراعظم ایک شریف آدمی ہے تو ہم یہ سازشیں ہیں وہ برداشت کرتے رہے، ملک، ادارے اور نظام کی خاطر برداشت کرتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گولڈن جوبلی کے موقع پر ضروری ہے کہ اس ایوان کے ریکارڈ میں وہ سازش لے کر آؤں ایک سلیکٹڈ وزیراعظم کو خدا حافظ کہہ دیا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سازش ختم ہوئی یا وہ ڈاکٹرائن ختم ہوا، آج تک ہر ادارے میں وہ لوگ موجود ہیں جو اس اتحاد، جمہوری سفر اور میثاق جمہوریت کے اتفاق رائے کے خلاف ہیں۔

اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ نہ صرف نظریاتی اور سیاسی طور پر اس اتحاد اور آئین کے خلاف ہیں اور اپنے ذاتی فائدے کی وجہ سے یہ نہیں چاہتے کہ جمہوری تجربہ کامیاب ہو۔

انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ہمار اتحاد کامیاب رہے بلکہ چاہتے ہیں جتنا جلدی ہو اسی سلیکٹڈ اور نالائق کو پھر سے مسلط کیا جائے، وہ چاہتے ہیں کہ جہاں سے ہم نے مل کر اس تباہی روکا تھا وہی سے شروع کریں اور ایک بار پھر سلیکٹڈ راج ہو۔

بلاول بھٹو نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ پچھلے 3 سال اس سازش کا ایک حصہ ہمارے سامنے تھا اور اس کو برا بھلا بھی کہتے تھے لیکن جو مرکزی کردار تھے وہ شاید ملک اور عوام کے سامنے اس طریقے سے نظر نہیں آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ منصوبہ کیا تھا جو آپ سب نے روکا، وہ 10 سال کا منصوبہ تھا، اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے کیا صرف ایک عمران نیازی یا سلیکٹڈ وزیراعظم موجود تھا یا کوئی اور بھی موجود تھا، اگر وہ منصوبہ کامیاب ہوتا تو ملک کو ون پارٹی اسٹیٹ میں تبدیل کیا جاتا تو دوسرے ادارے میں بھی میرٹ کی تباہی ہونا تھی۔

’10 سالہ منصوبےمیں سپریم کورٹ میں بھی سازش چل رہی تھی‘

انہوں نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں ایسے جج موجود ہیں جنہوں نے ہر آمر کے دور میں ان کی آمریت کو دور کیا، ہر غیرجمہوری قدم کے خلاف ایک اختلافی نوٹ لکھا، یہ وہی جج تھے، جنہوں نے قائد عوام کو ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے سے انکار کیا تھا، یہ وہی جج تھے جنہوں نے مشرف کو سیلوٹ کرنے سے انکار کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں ایسے بہادر جج ہماری تاریخ میں موجود رہے ہیں وہی افسوس کےساتھ ایسے بھی جج ہماری اعلیٰ عدلیہ میں رہے ہیں جو کہ اس آئین جس کا انہوں نے دفاع کرنا تھا، اس کا تحفظ نہیں کیا، ہر آمر کا ساتھ دیا، ہر وزیراعظم کے خلاف فیصلہ سنایا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اس ہاؤس کو اس ڈاکٹرائن کے تحت کسی ایک آدمی کو دلوانا تھا تو وہ ہمارا سپریم کورٹ میں بھی کچھ سازش پک رہی تھی، وہاں بھی ایک سازش ہے، اس وقت بڑا زور و شور سے چل رہا تھا کہ کسی نہ کسی طریقے سے اگر کوئی ایسا جج موجود ہو جو آئین کے ساتھ دیں گے اور اپنا کام کریں گے تو اس کا نکالنے کی سازش تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک وزیراعظم کو 10 سال دینا تھا اور کچھ ججوں کو بھی توسیع دلانی تھی تاکہ 10 سال کا ڈاکٹرائن ملتا رہا تو اس کو ربراسٹمب ملتے رہیں۔

قومی آئینی کنونشن میں چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے تمام ججز کو مدعو کیا گیا، ترجمان قومی اسمبلی

قومی اسمبلی کے ترجمان نے اس تاثر کو مکمل طور پر رد کیا ہے کہ پیر کوہونے والا قو می آئینی کنونشن، پارلیمانی اجلاس تھا۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ آئین کے 50 سال مکمل ہونے پر قومی اسمبلی میں گولڈن جوبلی کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور قومی آئینی کنونشن ان تقریبات کا ایک حصہ تھا جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے شمولیت کی۔

بیان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ پہلی دفعہ ایک 120 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز پارلیمان میں تشریف لائے، علاوہ ازیں طلبہ، معذور افراد، ڈاکٹرز، وکلا اور سماجی شخصیات کی ایک بڑی تعداد ان تقریبات میں شامل تھی۔

ترجمان قومی اسمبلی نے کہا کہ تقریبات کے حوالے سے اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ آئین کے تینوں ستونوں یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس قومی سطح کے اجلاس میں مناسب نمائندگی دی جائے، یہی وجہ ہے کہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی ,گورنر صاحبان اور صوبائی اسمبلیوں سے تعلق رکھنے والے نمائندگان بشمول گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے ممبران اس تقریب کا حصہ تھے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اسی جذبے کے تحت سپریم کورٹ کے تمام معزز جج صاحبان بشمول انتہائی قابل احترام چیف جسٹس صاحب کو بھی مدعو کیا گیا تھا، علاوہ ازیں صوبائی عدالتوں کے معزز جج صاحبان کو بھی اس تقریب کے لیے مدعو کیا گیا تھا-

ترجمان نے کہا کہ قومی آئینی کنونشن کسی بھی طرح سے پارلیمانی اجلاس نہیں تھا اور اس تقریب سے متعلق خبروں کو توڑ موڑ کر پیش کرنے سے گریز کیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں