چینی کی قیمت نئی بلندیوں پر، سابق حکمران اتحاد کے ایک دوسرے پر بحران کی ذمہ داری کے الزامات

05 ستمبر 2023
انہوں نے بتایا کہ اگست 2022 میں 100 کلو گرام بوری 8 ہزار 400 روپے میں دستیاب تھی اور آج یہ 17 ہزار یا 18 ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے— فوٹو: رائٹرز
انہوں نے بتایا کہ اگست 2022 میں 100 کلو گرام بوری 8 ہزار 400 روپے میں دستیاب تھی اور آج یہ 17 ہزار یا 18 ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے— فوٹو: رائٹرز

ملک کے مختلف حصوں میں چینی کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں جبکہ سابق حکمران اتحاد کے اراکین ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں کہ آخر ملک میں اس کے کم ہوتے ذخیرے کا ذمہ دار کون ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دوسری جانب کاشتکار حال ہی میں ختم ہونے والی پی ڈی ایم کی حکومت کو اسمگلنگ کی لعنت روکنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران تقریباً 10 لاکھ میٹرک ٹن چینی سرحد پار بھیجی گئی۔

پی پی آئی نے رپورٹ کیا کہ بلوچستان کے علاقے چمن میں ایک کلو چینی 230 روپے میں فروخت کی جارہی ہے جبکہ وسطی پنجاب کے علاقے عارف والا میں فی کلو چینی کی قیمت 185 روپے وصول کی جارہی ہے، کراچی کی تھوک مارکیٹ میں چینی کی قیمت 2 روپے کمی کے بعد 176 فی کلو ہو گئی ہے لیکن اس کی خوردہ قیمت اب بھی 190 روپے فی کلو ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے نگران وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں چینی کا ذخیرہ 22 لاکھ 70 ہزار ٹن سے زیادہ نہیں ہے اور سندھ حکومت پہلے ہی گزشتہ سال کے مقابلے میں گنے کی قیمت میں 41 فیصد اضافہ کر چکی ہے اور لاہور ہائی کورٹ نے 4 مئی کو ایک حکم نامہ معطل کیا تھا جس میں چینی کی قیمت 99 روپے فی کلو مقرر تھی اور اس کے بعد سے وہی قیمت برقرار ہے ۔

تاہم، یہ معاملہ سابق اتحادی جماعتوں، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان بھی ایک اہم نکتہ بن گیا ہے، ایک سینیٹر نے سابق وزیر داخلہ پر چینی کی اسمگلنگ میں سہولت کاری کا الزام لگایا ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے ایکس پر ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ معزز رانا ثنا اللہ نے 14 لاکھ ٹن چینی اسمگل کرنے کی اجازت دی اور سابق وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال سابق کابینہ کے ساتھی نوید قمر کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔

یہ معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا جب احسن اقبال نے جیو نیوز پر دعویٰ کیا کہ نوید قمر سے گزشتہ مہینوں میں چینی کی برآمدات کے حوالے سے سوالات پوچھے جانے چاہئیں، اور جب چینی کی برآمدات کی اجازت دی گئی تو وہ بہتر پوزیشن میں تھے کہ ملک میں چینی کے کتنے ذخائر دستیاب ہیں۔

احسن اقبال نے بتایا کہ گزشتہ حکومت اتحادی تھی اور صرف مسلم لیگ (ن) کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

سینیٹر تاج حیدر نے بتایا کہ نوید قمر نے باضابطہ طور پر صرف 2 لاکھ 50 ہزار ٹن چینی کی برآمدات کی اجازت دی تھی تاکہ زرمبادلہ حاصل کرکے وزارت خزانہ کی مدد کی جاسکتے ۔

تاہم کاشتکار دونوں طرف کے دلائل سے مطمئن نہیں ہیں، اس کے بجائے وہ گزشتہ حکومت کے تمام لوگوں کو تازہ بحران کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، انجمن تحفظِ کاشتکاران سردار یعقوب سندھو نے بتایا کہ یہ تقریباً ایک برس قبل کی بات ہے جب چینی کی اسمگلنگ ’حکومت کی ناک کے نیچے‘ شروع ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اگست 2022 میں ہمیں اسمگلنگ کے بارے میں پتا چلا، ہم نے آواز بلند کی، ہر متعلقہ حکام سے رابطہ کیا اور میڈیا پر شور مچایا لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔

انہوں نے بتایا کہ اگست 2022 میں 100 کلو گرام بوری 8 ہزار 400 روپے میں دستیاب تھی اور آج یہ 17 ہزار یا 18 ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے، ہمارے پاس یہ دعویٰ کرنے کی وجوہات ہیں کہ تقریباً 7 لاکھ ٹن چینی پہلے سے ہی افغانستان جا چکی ہے اور تقریباً تین لاکھ ٹن سے4 لاکھ ٹن تک سرحد کے ساتھ ملحقہ قصبوں میں گوداموں میں ذخیرہ کی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں