گجرات کا قصائی ٹھہرائے جانے والے نریندر مودی کے وزیراعظم بننے سے بھارتی روشن خیال طبقات کو جو اندیشے لاحق تھے، وقت نے انہیں درست ثابت کیا۔

سال 2014ء میں بی جے پی کی سرکار آنے کے بعد بھارت میں قوم پرستی اور تعصب کی ایک ایسی لہر اٹھی جس سے ایک جانب جہاں ہندو اکثریت میں تشدد پسندی پروان چڑھی وہیں دوسری جانب اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں نے سیاست اور ریاست میں دوسرے درجے کے شہری کی شکل اختیار کرلی۔

مودی جی کے ساتھ بھارت شناخت کے نئے سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ تاریخ کے اوراق میں موجود مغل اور دیگر مسلم حکمرانوں کو غاصب اور لٹیرے بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ ان سے منسوب شہروں اور عمارتوں کو نئے نام دینے کا مطالبہ سامنے آیا، گوشت شجر ممنوعہ ٹھہرا، حجاب تنازعے نے جنم لیا اور موب لنچنگ بڑھنے لگی۔

اس شدت پسندی اور عدم برداشت کے ساتھ ساتھ بھارت میں ایک اور منفی شے کا جنم ہوا جسے آج مودی کے مخالف ’گودی میڈیا‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ یعنی مودی نواز، اپوزیشن مخالف میڈیا جو حقائق سے زیادہ بی جے پی سرکار کی خوشنودی کا متلاشی ہے۔

’گودی میڈیا‘ سے کیا مراد ہے؟

اگر میڈیا تحقیق و تفتیش کا راستہ اختیار کرتے ہوئے حقائق سامنے لائے، حکمرانوں سے سخت سوالات کرے تو یہ ’واچ ڈاگ میڈیا‘ کہلایا جائے گا لیکن اگر وہی میڈیا لالچ، مفادات یا خوف کے باعث طاقتور اور حکمران طبقے کا ترجمان بن جائے تو وہ ’لیپ ڈاگ میڈیا‘ یا ’گودی میڈیا‘ کی تاریک کیٹیگری میں جا گرے گا۔ یعنی وہ میڈیا جسے گود لے لیا گیا ہو۔

گزشتہ ایک عشرے سے بھارت کے گودی میڈیا کا بنیادی وطیرہ بی جے پی کے ہر اقدام کی مدح سرائی اور حکومت مخالف آوازوں اور خبروں کو نظرانداز کرنا رہا ہے پھر چاہے وہ آواز کانگریس یا عام آدمی پارٹی جیسی اپوزیشن جماعتوں کی ہو، احتجاج کرتی خواتین ایتھلیٹس کی یا اپنے حقوق کے لیے دھرنے پر بیٹھے کسانوں کی۔

اس گودی میڈیا نے نہ صرف ان آوازوں کو یک سر نظرانداز کیا بلکہ ضرورت پڑنے پر ان سرگرمیوں کو مودی سرکار کی خوشنودی کے لیے غداری اور ملک دشمنی قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔

کسانوں کا احتجاج اور مودی جی کی خاموش پریس کانفرنس

صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 2021ء میں دھرنے پر ببیٹھے کسان بھی گودی میڈیا مردہ باد اور گودی میڈیا ہائے ہائے کے نعرے بلند کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ جب جب مودی نواز نیوز چینلز یا اینکز رپورٹنگ کے لیے دھرنے کا رخ کرتے، دہلی کی سرحد پر ٹھٹھرتی سردی میں احتجاج کرتے محنت کشوں کی جانب سے یہی نعرہ بلند ہوتا۔

ایسا ہونا بے سبب نہیں تھا۔ اپنے جائز مطالبات کے لیے پرامن احتجاج کرتے ان کسانوں پر مودی نواز گودی میڈیا کی جانب سے دہشت گرد اور ملک دشمن کا لیبل چسپاں کردیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جواباً دھرنے میں ذی نیوز، آج تک، اے بی پی نیوز، انڈیا ٹی وی اور ری پبلک ٹی وی جیسے سرکار نواز چینلز اور ان کے اینکرز کے خلاف بینرز آویزاں کیے گئے۔

یہ واقعات یک دم رونما نہیں ہوئے۔ ان کا آغاز اس وقت ہوگیا تھا جب نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے اور وہ فقط اپنے من پسند صحافیوں کے سہل سوالات ہی کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ اگر کرن تھاپر جیسا کوئی سینیئر صحافی تیز دھار سوالات سے لیس ہوکر انٹرویو لینے پہنچتا تو وہ واک آؤٹ کرجاتے۔

اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے سخت سوالات کرنے والے صحافی اور اینکرز سے مکمل دوری اختیار کرلی جبکہ ان کا گودی میڈیا نوٹ بندی جیسے بحران میں بھی سب اچھا ہے کہ گُن گاتا رہا۔ آخر کار مئی 2019ء میں عام انتخابات سے قبل مودی جی نے اپنی پہلی باقاعدہ پریس کانفرنس کی مگر یہ پریس کانفرنس اُن کے الفاظ کے بجائے ان کی خاموشی کی وجہ سے یادگار قرار پائی۔

اس پریس کانفرنس میں نریندر مودی نے کسی صحافی کے سوال کا جواب نہیں دیا۔ تمام جوابات بی جے پی کے صدر امت شاہ ہی دیتے رہے۔ جب وزیراعظم سے براہ راست ایک سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم ’ڈسپلنڈ سولجر‘ ہیں۔ صدر ہمارے لیے سب کچھ ہوتا ہے۔ گویا انہوں نے اس سوال کو بھی امت شاہ کی سمت دھکیل دیا۔

ایک جانب جہاں راہول گاندھی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس پریس کانفرنس کو آڑے ہاتھوں لیا وہیں سوشل میڈیا پر بھی اس پر پھبتیاں کسی گئیں۔ یوں تو بہت لوگوں نے طنز کے تیر برسائے مگر معروف بھارتی اخبار دی ٹیلی گراف اس میدان میں بازی لے گیا جس نے اپنے صفحہِ اول پر ’نو ہارن پلیز‘ کی علامت کے ساتھ نریندر مودی کی 7 تصاویر شائع کیں جن میں وہ خاموش بیٹھے نظر آتے ہیں۔

ایک سمت مودی جی کی پراسرار خاموشی تھی تو دوسرے جانب وہ ان بولی وڈ فنکاروں کے ساتھ خوب چہکتے دکھائی دیتے جو فکری طور پر اُن کے قریب تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ مودی سرکار کی انتہاپسند پالیسیاں بولی وڈ کے سیکولر تشخص میں بھی دراڑ ڈالنے میں کامیاب رہیں۔ مسلم اداکاروں کی برسوں سے قائم بالادستی چیلنج ہوئی اور قوم پرست، دیش بھگت سوچ رکھنے والے فنکار ابھرنے لگے۔ ان میں اکشے کمار اور اجے دیوگن کے نام نمایاں ہیں۔ یہ اکشے کمار ہی تھے جنہیں نریندر مودی نے 2019ء کے انتخابات سے قبل ایک ایکسکلوژو اور بے تکلف انٹرویو دینے کے لیے منتخب کیا جس میں اکشے کمار نے یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی کہ وہ آم کاٹ کر کھانا پسند کرتے ہیں یا واش بیسن پر کھڑے ہوکر چوس کر کھاتے ہیں۔

اپنی بے پناہ قوت، پروپیگنڈے اور گودی میڈیا کے ذریعے انہوں نے بولی وڈ کو بڑی حد تک رام کرلیا۔ یہاں تک کہ ان فنکاروں کو اپنے ساتھ کھڑا کرکے مسکرانے پر مجبور کردیا جو شاید روشن خیالات اور سیکولر نظریات کے حامی تھے۔

البتہ اپنے منتخب کردہ اینکرز کے سہل سوالات اور سیاسی تقریبات میں مسلسل تقریریں کرنے والے نریندر مودی نے اس وقت ہمیشہ خاموشی کو ترجیح دی جب آواز بلند کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی تھی۔

سن 2022ء میں ملک کے 100 سے زائد سابق بیوروکریٹس نے نریندر مودی کو ایک کھلا خط لکھا جس میں اقلیتیوں کے خلاف ملک میں جاری نفرت انگیز سیاست کے حوالے سے وزیراعظم کی خاموشی پر سوال اٹھایا گیا تھا۔ خط کے یہ الفاظ حقائق کا دوٹوک اظہار کرتے ہیں، ’آج معاشرے کو جس نفرت کی سیاست کا سامنا ہے، اس میں آپ کی خاموشی سماعتوں کو بہرا کرنے والی ہے‘۔

گودی میڈیا کی اصطلاح کس نے متعارف کروائی؟

بیشتر تجزیہ کار متفق ہیں کہ یہ اصطلاح این ڈی ٹی وی سے وابستہ سینیئر صحافی اور اینکر رویش کمار نے متعارف کروائی تھی، جنہوں نے یہ الزام لگایا تھا کہ گودی میڈیا کا مقصد مودی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو غدار قرار دے کر کچلنا ہے۔

جب 2017ء میں این ڈی ٹی وی کے معاون بانی اور صدر پرنائے رائے کے گھر پر سی بی آئی کا چھاپہ مارا تو رویش کمار نے ایک بار پھر مودی سرکار کو آڑے ہاتھ لیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب سب گودی میڈیا بنے ہوئے ہیں، کوئی ایک ایسا بھی ہے جو آپ کی گود میں نہیں کھیل رہا‘۔

میڈیا سے وابستہ ہونے کے باوجود رویش کمار الیکشن 2019ء سے قبل اس مؤقف کے ساتھ سامنے آئے کہ بھارتی عوام کی آزاد ذہن سازی کا اب فقط ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ عوام ٹی وی چینلز پر ہونے والے مباحثوں کا بائیکاٹ کردیں۔

رویش کمار نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ گودی میڈیا بھارتی نوجوانوں کو ’فسادی اور ہتھیارا‘ (قاتل) بنا رہا ہے۔ بڑھتے موب لنچنگ کے واقعات، اقلیتوں کی بستیوں اور عبادت گاہوں پر حملے واضح اشارہ کرتے ہیں کہ یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ بھارتی سماج میں جنم لینے والا عدم برداشت، نفرت، تعصب اور فرقہ واریت کا رویہ ان ہی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جن کی بنیاد مودی سرکار نے گودی میڈیا کے ذریعے رکھی تھی۔

رویش کمار کی گودی میڈیا کے بائیکاٹ کی خواہش گزشتہ انتخابات میں تو پوری نہیں ہوئی لیکن 2024ء کے عام انتخابات سے قبل اپوزیشن اتحاد کی جانب سے ایک ایسا اقدام اٹھایا گیا ہے جس نے پہلی بار مودی نواز گودی میڈیا کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔

14 اینکرز کا بائیکاٹ

ستمبر 2023ء میں اپوزیشن اتحاد ’انڈین الائنس‘ نے 14 ٹی وی نیوز اینکرز کو جانبدار اور متعصب ٹھہراتے ہوئے ان کے پروگرامز میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کردیا۔ اس اعلان نے ان اینکرز اور ان کے چینلز کے ساتھ ساتھ بی جے پی کو بھی آگ بگولا کردیا جس نے فوراً ہی اس فیصلے کو آزادی اظہار اور صحافت پر حملہ قرار دے ڈالا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ بی جے پی سرکار خود گزشتہ کئی برس سے آزادی صحافت پر حملہ آور ہے جس کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت پریس فریڈم کے عالمی انڈیکس پر 161 نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ روشن خیال تجزیہ کاروں کے مطابق ایک ایسے موڑ پر کہ جب انتہاپسندی عروج پر ہے، گئو رکشا، بیف اور لو جہاد جیسے ایشوز کی بنیاد پر مسلمانوں کو دبایا جارہا ہے اور گودی میڈیا حکومتی مداح سرائی میں مگن ہے، اپوزیشن اتحاد کا یہ اقدام وقت کا عین مطالبہ تھا۔

ان اینکرز میں ری پبلک ٹی وی کے ارنب گوسوامی، آج تک کے سدھیر چوہدری اور نیوز 18 انڈیا کے امیش دیوگن جیسے معروف نام شامل ہیں۔

معروف بھارتی اخبار انقلاب میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اپوزیشن کے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ گودی میڈیا گزشتہ 10 برس سے کانگریس، عام آدمی پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے خلاف محاذ بنائے بیٹھا ہے۔ اینکرز میڈیا کے نمائندے کم اور سیاسی کارندے زیادہ لگتے ہیں، ایسے میں یہ فیصلہ ناگزیر تھا۔

گو یہ اینکرز واویلا کررہے ہیں کہ انہیں ان کی حب الوطنی کی سزا دی جارہی ہے مگر باشعور بھارتی طبقات اس پروپیگنڈا مشن کی حقیقت سے واقف ہیں۔ اگر آئندہ انتخابات میں بھارت کے سیاسی سیٹ اپ میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو میڈیا کو اپنی ڈگر پر لانا نئی حکومت کی اولین ترجیح ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں