غیرملکیوں کے جعلی شناختی کارڈ کے اجرا میں ’بیرونی عناصر‘ ملوث

اپ ڈیٹ 12 اکتوبر 2023
ڈیٹا کی رازداری سے متعلق قانون کی عدم موجودگی کی وجہ سے نادرا ملازمین سزا سے بچ جاتے ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز
ڈیٹا کی رازداری سے متعلق قانون کی عدم موجودگی کی وجہ سے نادرا ملازمین سزا سے بچ جاتے ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز

نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے نومنتخب چیئرمین نے گزشتہ روز سینیٹ کے ایک پینل کو بتایا کہ غیرملکیوں کو جعلی شناختی کارڈ جاری کرنے میں نادرا کا کچھ عملہ اور بیرونی عناصر ملوث ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل منیر افسر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے سامنے پہلی بار پیش ہوئے، اس دوران انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی شہری خاندان کے افراد کو رشوت دے کر مقامی خاندان کا حصہ بن جاتے ہیں۔

سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی، سیکریٹری داخلہ آفتاب اکبر درانی، اسپیشل سیکریٹری داخلہ ندیم محبوب، ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن مصطفی جمال قاضی، پاکستان کوسٹل گارڈ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل، سینیٹر سیف اللہ ابڑو، فیصل سلیم رحمٰن، شہادت اعوان، فیصل علی سبزواری، فوزیہ ارشد، دلاور خان، دانش کمار، دوست محمد خان، بہرامند خان تنگی، شیری رحمٰن اور کامل علی آغا نے شرکت کی۔

چیئرمین نادرا نے کہا کہ جعلی شناختی کارڈ کے اجرا میں ملوث نادرا ملازمین کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر 84 کے قریب عہدیداروں کو معطل کیا گیا ہے، تاہم ملازمین ڈیٹا کی رازداری سے متعلق قانون کی عدم موجودگی کی وجہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پروسیسنگ کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عام طور پر غیرملکی شہری پاکستانی خاندانوں کی اسناد، حقیقتاً پاکستانی خاندان سے تعلق رکھنے والے شناختی کارڈ ہولڈر کی بائیو میٹرک تصدیق کے ذریعے دستاویزات تیار کرکے پاکستانی خاندانوں کا حصہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں وہ نادرا کے قیام سے پہلے جاری کیے گئے پرانے مینوئل شناختی کارڈز یا 2004 سے پہلے جاری کیے گئے متوفی افراد کے شناختی کارڈ استعمال کرتے ہیں جن کا بائیو میٹرک ڈیٹا، ڈیٹا بیس میں دستیاب نہیں ہے، یا پھر وہ 2012 سے پہلے بغیر تصویر کے شناختی کارڈ حاصل کرنے والی خواتین کے شناختی کارڈ کا استعمال کرتے ہیں، اس عمل میں انہیں نمایاں شخصیات اور مقامی لوگوں کی کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل منیر افسر نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ صرف حقیقی شہریوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے اور غیرملکیوں کو پاکستانی خاندانوں کا حصہ بننے سے روکنے کے لیے نادرا تصدیق کے عمل کو مسلسل بہتر بنا رہا ہے۔

کراچی میں محسود قبائلیوں کو پاسپورٹ کے حصول میں درپیش مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن مصطفیٰ جمال قاضی نے کہا کہ کسی فرد کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔

تاہم انہوں نے کہا اس عمل میں تاخیر ضرور ہوتی ہے کیونکہ محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کراچی میں اپنے پاسپورٹ حاصل کر رہے ہیں جبکہ قواعد کے مطابق ہر شہری کو اپنا پہلا پاسپورٹ اپنے اپنے ضلع میں حاصل کرنا چاہیے۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈز (پی سی جی) نے سینیٹ کو بتایا کہ محدود بجٹ کے باوجود تنظیم نے گزشتہ ایک سال میں 19.25 ٹن منشیات پکڑنے میں کامیابی حاصل کی اور 2 ہزار 555 تارکین وطن کو غیر قانونی طور پر ساحلی علاقے سے گزرنے سے روکا جن میں پاکستانی، افغان، ایرانی اور نائجیرین شامل تھے۔

غیر قانونی موبائل سمز

دریں اثنا، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سرکل نے مشترکہ طور پر ایک فرنچائز پر چھاپا مارا جو غیرقانونی طور پر افغان شہریوں کو 3 ہزار روپے فی سم کے حساب سے ایکٹیویٹڈ سمز فروخت کر رہی تھی۔

پی ٹی اے کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پشاور کے کوہاٹ روڈ پر ایک افغان شہری کی جانب سے چلائی جانے والی فرنچائز افغان پاسپورٹ پر غیرقانونی طور پر سم جاری کرنے میں ملوث تھی۔

قبل ازیں، پی ٹی اے نے غیرقانونی سموں کی فروخت سے متعلق معلومات کی بنیاد پر ایف آئی اے کو شکایت درج کرائی تھی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ چھاپے کے دوران اسکین شدہ پاسپورٹ ڈیٹا پر مشتمل 5 لیپ ٹاپ اور 8 موبائل فون قبضے میں لے لیے گئے، چھاپہ مار ٹیموں نے جائے وقوع سے 5 افراد کو گرفتار کیا، ایف آئی اے اس معاملے کی مزید تحقیقات کر رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں