غیرقانونی تارکین وطن کی رضاکارانہ واپسی کا آج آخری روز، انخلا جاری

متعلقہ عہدیداران اس عمل میں کئی لاجسٹک اور سیاسی رکاوٹوں کی پیش گوئی کر رہے ہیں—فوٹو: اے ایف پی
متعلقہ عہدیداران اس عمل میں کئی لاجسٹک اور سیاسی رکاوٹوں کی پیش گوئی کر رہے ہیں—فوٹو: اے ایف پی

غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیرملکیوں کی رضاکارانہ واپسی کی آج آخری تاریخ ہے، حکومت کا دعویٰ ہے کہ تمام غیر رجسٹرڈ غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے لیے تیاریاں جاری ہیں، تاہم متعلقہ عہدیداران اس عمل میں کئی لاجسٹک اور سیاسی رکاوٹوں کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام نے بتایا کہ گزشتہ ماہ کے دوران تقریباً ایک لاکھ غیرقانونی افغان تارکین وطن طورخم اور چمن بارڈر کراسنگ سے رضاکارانہ طور پر اپنے ملک واپس چلے گئے ہیں۔

تاہم پاکستان میں غیر قانونی تارکین وطن کی کل تعداد کے حوالے سے مختلف تخمینوں کی وجہ سے ان کی ملک بدری کا عمل کافی مشکل لگتا ہے۔

دریں اثنا نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے خبردار کیا ہے کہ اگر آج (منگل) کے بعد کوئی پاکستانی غیرقانونی تارکین وطن کو پناہ دینے میں ملوث گیا تو سخت کارروائی کی جائے گی۔

ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ کوئی بھی پاکستانی شہری جو غیرقانونی تارکین وطن کو کوئی پراپرٹی کرائے پر دیتا ہے اُسے اِس جرم میں شریک سمجھا جائے گا۔

دوسری جانب نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے لمز میں طلبہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمجھنا غلط ہے کہ تمام افغان دہشت گرد ہوتے ہیں لیکن غیر قانونی سرگرمیوں میں بعض گروہوں کا ملوث ہونا ایک حقیقت ہے، یہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کی زندگیوں کی حفاظت کرے۔

سندھ

حکام کا اندازہ ہے کہ صرف کراچی میں 5 لاکھ افغان رہتے ہیں، حکومت سندھ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اب تک صوبے بھر میں 2 لاکھ غیرقانونی تارکین وطن کی نشاندہی کی ہے۔

لیکن ایک عہدیدار نے بتایا کہ سندھ میں 5 لاکھ کے قریب غیر قانونی طور پر مقیم افغان تارکین وطن موجود ہیں اور حکام کے لیے ان میں سے نصف کو بھی ہولڈنگ سینٹرز میں ٹھہرانا بہت مشکل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ لاکھوں تارکین وطن کی وطن واپسی کے منصوبے کو سیاسی مخالفت، لاجسٹک مسائل اور سفارتی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، 750 سے زائد غیرقانونی افغان ہیں جنہیں حال ہی میں کراچی میں کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا اور جیلوں میں بند کردیا گیا، سندھ کی جیلیں پہلے ہی سے بھری ہوئی ہیں، غیرقانونی افغان تارکین وطن کی تعداد کم بھی ہو تو انہیں کہاں رکھا جائے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔

تاہم وزیر داخلہ سندھ ریٹائرڈ بریگیڈیئر حارث نواز نے ان خدشات کو دور کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں 3 ’ہولڈنگ سینٹرز‘ بنائے جا رہے ہیں، ایک کراچی کے سلطان آباد حاجی کیمپ میں، ایک حیدرآباد اور ایک جیکب آباد میں ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 400 سے 500 غیرقانونی تارکین وطن کو کراچی ہولڈنگ سینٹر لایا جائے گا، اُن کی وطن واپسی ہفتے میں 3 روز یعنی پیر، بدھ اور جمعہ کو بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ بھیڑ اور دیگر مسائل سے بچنے کے لیے تمام غیر قانونی تارکین کو ہولڈنگ سینٹرز میں نہیں رکھیں گے، تارکین وطن کو ڈی پورٹ کرنے کے تمام اخراجات حکومتِ سندھ برداشت کرے گی، اس پر 2 ارب روپے لاگت آسکتی ہے اور سندھ کابینہ اس کی منظوری دے گی۔

دریں اثنا حکومت سندھ کے ذرائع نے بتایا کہ ابھی تک وزارت داخلہ نے فنڈز کی فراہمی کے لیے محکمہ خزانہ کو درخواست نہیں بھیجی ہے۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جن اسمعٰیلی افغانوں نے کینیڈا امیگریشن کی درخواست دی ہے انہیں گرفتار اور حراست میں نہیں لیا جائے گا۔

خیبر پختونخواہ

سرکاری دستاویزات کے مطابق خیبرپختونخوا میں تقریباً 3 لاکھ غیر قانونی افغان تارکین وطن مقیم ہیں۔

اس پیش رفت سے واقف ایک عہدیدار نے کہا کہ کسی کو بھی ’ہولڈنگ سینٹرز‘ والے علاقوں میں نہیں لے جایا جا رہا ہے کیونکہ ابھی ڈیڈ لائن ختم ہونا باقی ہے، غیرقانونی تارکین وطن کو ہولڈنگ سینٹرز میں منتقل کرنے کا عمل کل (بدھ) سے شروع ہو جائے گا۔

ایک اور عہدیدار نے کہا کہ ڈیڈلائن گزر جانے کے بعد بھی اگر کوئی رضاکارانہ طور پر جانا چاہے گا تو کوئی بھی انہیں پریشان نہیں کرے گا لیکن جو لوگ اس کے بعد بھی یہیں رکے رہیں گے انہیں پولیس گرفتار کرے گی اور اُن پر غیرقانونی طور پر پاکستان میں رہنے کا کیس دائر کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں یقیناً پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہنے کے کیسز کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن انہیں جیلوں میں منتقل کرنے کے بجائے ہولڈنگ سینٹرز والے علاقوں میں ایک جوڈیشل مجسٹریٹ نادرا کے ذریعے غیرقانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کی اسکریننگ کے بعد ان کی رہائی کے احکامات جاری کرے گا، جس کے بعد تارکین وطن کو انخلا کے لیے بارڈر بھیج دیا جائے گا۔

رابطہ کرنے پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ محمد عابد مجید نے کہا کہ حکومت غیر قانونی تارکین وطن کے رضاکارانہ اںخلا اور ملک بدری دونوں کے لیے تیار ہے، دونوں عمل ساتھ ساتھ چلیں گے۔

بلوچستان

بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ غیرقانونی تارکین وطن کی وطن واپسی کی تاریخ میں توسیع کی خبریں جعلی ہیں، اس میں توسیع کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

پنجاب

دیگر علاقوں کی طرح سب سے بڑے صوبے کی حکومت بھی ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے خلاف جامع کریک ڈاؤن شروع کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔

حکومت پنجاب نے آئی-ٹیبلٹس کا انتظام کیا ہے جو متعلقہ ڈپٹی کمشنرز اور ضلعی پولیس کو فراہم کیے جارہے ہیں، جس میں نادرا، پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیوں نے پاکستان میں مقیم اُن افغان شہریوں کا ڈیٹا فیڈ کیا ہے جن کے پاس رہائش کا ثبوت (پی او آر) کارڈز یا افغان سٹیزن کارڈز موجود ہیں۔

محکمہ داخلہ نے ایک ڈیش بورڈ بھی تیار کیا ہے جہاں حکام غیرقانونی تارکین وطن کی اسناد اور دیگر متعلقہ معلومات درج کر سکتے ہیں۔

کل بدھ سے ضلعی انتظامیہ افغان شہریوں اور غیر ملکیوں سے رابطہ کرے گی تاکہ ان کا ڈیٹا انگوٹھے اور انگلیوں کی اسکیننگ کے ذریعے آئی-ٹیبلیٹس سے چیک کیا جا سکے۔

محکمہ داخلہ کے ذرائع نے بتایا کہ غیرقانونی طور پر مقیم تارکین وطن کی جائیداد اور کاروبار کو بھی ضبط کیا جائے گا اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

ایسے پیچیدہ معاملات جن میں کسی غیرقانونی تارکین وطن نے پاکستانی شہری سے شادی کی ہو تو انہیں پہلے مرحلے میں ملک بدر نہیں کیا جائے گی۔

وفاقی حکومت نے انخلا کے لیے دنوں کے حساب سے شیڈول کو بھی حتمی شکل دے دی ہے اور متعلقہ صوبوں کو مطلع کر دیا ہے تاکہ افغان شہریوں اور غیر ملکیوں کے انخلا کے وقت کوئی الجھن نہ ہو۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں