سائفر کیس میں سابق وزیراعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ و پارٹی رہنما شاہ محمود قریشی کے خلاف فردِ جرم عائد کرنے کے لیے 13 دسمبر (کل) کی تاریخ مقرر کردی گئی۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین اڈیالہ جیل میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی سماعت کی۔

عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا، ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹرز شاہ خاور اور ذوالفقار عباس نقوی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

عمران خان کی جانب سے ان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر جبکہ شاہ محمود قریشی کے وکیل بیرسٹر تیمور ملک بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

سائفر کیس میں دونوں رہنماؤں پر دوبارہ فرد جرم آج عائد کیے جانے کا امکان تھا تاہم آج ہونے والی سماعت میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے 13 دسمبر (کل) کی تاریخ مقرر کردی گئی۔

دوران سماعت عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے اہل خانہ سمیت میڈیا کے مخصوص نمائندگان کو کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت دی گئی۔

ملزمان کے وکلا کی جانب سے عدالت میں چالان کی نامکمل نقول، نوٹیفکیشن اور میڈیا رسائی سے متعلق 6 متفرق درخواستیں دائر کی گئیں اور موقف اپنایا کہ محدود میڈیا کو داخلے کی اجازت دی گئی ہے، اکثریت باہر کھڑی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ انتظامی مسئلہ ہے، اس معاملہ کو دیکھ لیں گے، عمران خان نے کمرہ عدالت کے باہر تالا لگانے کا اعتراض کیا اور کہا کہ ہمارے اہل خانہ میں کوئی دہشتگرد نہیں ہیں، باہر تالا لگا دیا گیا ہے جس ہر عدالت نے کمرہ عدالت کے داخلی راستہ پر لگا تالا کھلوا دیا۔

جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے ریمارکس دیے ایڈمنسٹریٹیو ایشوز ہیں، آپ کو اندازہ نہیں کیسے مینیج کیا ہے، آوٹ آف وے جا کر ریلیف دیا، میرٹ پر جس کا جو حق بنتا ہے دیا جائے گا۔

وکیل سلمان صفدر نے مؤقف اپنایا کہ جلدبازی اور عجلت میں آگے بڑھ رہے ہیں، ایسا نہ کیاجائے، عدالت نے استفسار کیا کہ کوئی پوائنٹ بتادیں، کہاں جلدی ہوئی ہے یا عجلت دکھائی دی؟

سلمان صفدر نے مؤقف اپنایا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے 2 فیصلوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالت کو سماعت سے نہیں روکا، عدالت فردجرم عائد کرنے کی کارروائی مکمل کرے۔

جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے ریمارکس دیے جو بھی فیصلہ کریں گے میرٹ پر کریں گے، جو لوگ جیل میں ہیں اگر ان کا جرم نہیں بنتا تو رہا ہونا چاہیے، متوازن اور نیوٹرل ہو کر کیس کا چلا رہا ہوں۔

اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ کی عدالت نے اوپن کورٹ کا فیصلہ دیا جس کو سراہتے ہیں، انتظامیہ اگر عدالت کے اوپر اور عدالت بن جائے گی تو ٹرائل کیسے چلے گا؟ اس پر عدالت نے استفسار کیا آپ بتائیں کیس طرح ٹرائل کو چلائیں؟

دوران سماعت وکیل عثمان گل کی جانب سے چالان کی مکمل نقول فراہم نہ کرنے کا اعتراض اٹھایا جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ نقول کی فراہمی کے بعد 7 دن تھے، اس دوران اعتراض کیوں نہیں اٹھایا؟ آپ کو 2، 2 مرتبہ کاپیاں فراہم کی ہیں۔

عدالت نے چالان کی نقول، نوٹی فکیشن اور میڈیا رسائی سے متعلق 6 متفرق درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فردِ جرم عائد کرنے کے لیے 13 دسمبر (کل) کی تاریخ مقرر کردی۔

واضح رہے کہ 23 اکتوبر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت قائم خصوصی عدالت نے عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں فرد جرم عائد کردی تھی۔

25 اکتوبر کو عمران خان نے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دی تھی۔

21 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں جاری جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کی انٹراکورٹ اپیل کو منظور کرتے ہوئے جیل ٹرائل کا 29 اگست کا نوٹی فکیشن غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔

بعدازاں 23 نومبر کو سائفر کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 28 نومبر کو اسلام آباد کے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس (ایف جے سی) میں پیش کرنے کی ہدایت کردی تھی۔

28 نومبر کو عمران خان کو خصوصی عدالت میں پیش کرنے سے اڈیالہ جیل حکام نے سیکیورٹی خدشات کے سبب معذرت کرلی تھی، عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا تھا کہ کیس کا اوپن ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہی ہوگا۔

یکم دسمبر کو وفاقی وزارت داخلہ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔

2 دسمبر کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی کارروائی اڈیالہ جیل میں دوبارہ شروع ہوئی تاہم جیل حکام نے بیشتر صحافیوں کو اوپن ٹرائل میں شرکت سے روک دیا، سماعت کے دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی حاضری لگائی گئی جس کے بعد سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی تھی۔

4 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو کیس کے نقول فراہم کر دیے گئے تھے، جج نے کیس کی مزید سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف 12 دسمبر کو فردِ جرم عائد کی جائے گی۔

سائفر کیس

یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔

ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔

اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کیس کی ابتدائی سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیر مجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز) کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں