ایران کے شہید ڈرونز سے اسرائیل خوف زدہ کیوں ہے؟
اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر 200 جنگی جہازوں کے ذریعے 100 سے زائد مقامات پر حملہ کرکے نئی جنگ چھیڑ دی۔
اسرائیلی جارحیت پر ایران نے بھی صیہیونی ریاست کی جانب سے تقریبا 100 ڈرونز اور میزائل فائر کیے تھے، جنہیں اسرائیلی فوج نے ناکام بنانے کا دعویٰ بھی کیا۔
لیکن اب اسرائیلی اخبار نے بتایا ہے کہ ایران اپنے جدید ترین اور خطرناک شہید ڈرونز سے اسرائیل کو نشانہ بنا سکتا ہے اور مذکورہ ڈرونز دفاعی نظام کو ناقص بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق اطلاعات ہیں کہ ایران کی جانب سے اسرائیل کی طرف بھیجے جانے والے ڈرونز اور میزائل میں دو انتہائی خطرناک ماڈلز شہید 129 اور شہید 136 بھی شامل ہیں، جن کی صلاحیتیں حیران کردینے والی بتائی جاتی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ اسرائیلی دفاعی نظام نے ایران کی جانب سے بھیجے گئے زیادہ تر ڈرونز کو راستے میں ہی تباہ کردیا، تاہم اسرائیلی فوج نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ چند گھنٹوں میں ایران کے خطرناک شہید ڈرونز ملک میں داخل ہو سکتے ہیں۔
شہید 129 جنگی ڈرونز کیا ہے؟
شہید 129: ایک طویل فاصلے تک پرواز کرنے والا، کثیر المقاصد، جدید ترین ٹیکنالوجی کی حامل سہولت ہے جسے مغربی نظاموں اور خصوصاً امریکی ڈرونز ٹیکنالوجی سے سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا ہے۔
مذکورہ ڈرون 24 گھنٹے تک مسلسل پرواز کرنے اور تقریباً 1700 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو وسطی ایران سے اسرائیل کے فاصلے کے برابر ہے۔
شہید 129 سے ایرانی پاسداران انقلاب کو بغیر کسی دورانِ پرواز ایندھن بھرنے یا ریلیو اسٹیشنز پر انحصار کرنے کے حملے یا انٹیلی جنس حاصل کرنے کا مواقع ملتے ہیں۔
شہید 129 کا جنگی ڈرون چار گائیڈڈ میزائلوں سے لیس ہو سکتا ہے، جو زمین پر اہداف کو انتہائی درستگی سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔
شہید 129 میں تھرمل امیجنگ، جدید کمیونیکیشن لنکس، اور ریموٹ کنٹرول سسٹم موجود ہوتا ہے، جس سے یہ برقی جنگ (electronic warfare) اور سگنل جامنگ سے بھرپور علاقوں میں بھی مؤثر طریقے سے کام کر سکتا ہے۔
شہید 136 جنگی ڈرونز کیا ہے؟
شہید 136 ڈرون سستا، سادہ، لیکن مہلک ہے، یہ ایک ”خودکش ڈرون“ کے طور پر تیار کیا گیا ہے، جو 20 سے 50 کلوگرام وزنی دھماکہ خیز مواد کے ساتھ اپنے ہدف سے ٹکرا کر تباہ ہو جاتا ہے۔
مذکورہ ڈرون سادہ ساخت، سیدھے پروں، چھوٹے سائز اور پچھلے حصے میں ایک چھوٹے پسٹن انجن ہونے کی وجہ سے سستا ہے، اس سے ایران کو بڑی تعداد میں یہ تیار کرنے اور بیک وقت چھوڑنے کا موقع ملتا ہے۔ چاہے کچھ ڈرون مار گرائے جائیں، باقی پھر بھی اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ اس ڈرون میں جدید نیویگیشن نظام موجود نہیں لیکن اس کا GPS سسٹم (اور بعض اوقات ایک چھوٹا سا سامنے لگا کیمرہ) اسے مقررہ اور نسبتاً غیر محفوظ اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے کافی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
یہ ڈرون زمین کے قریب اور آہستہ پرواز کرتا ہے، جس سے یہ ریڈار پر پکڑے جانے سے بچ جاتا ہے، خصوصاً جب درجنوں کی تعداد میں ہوا میں ڈرونز چھوڑے جائیں تو یہ ریڈار میں نظر نہیں آتا۔