غلط انتخاب

03 جنوری 2014
وزیرِاعظم نواز شریف نے بدھ کو، افغان طالبان کے نام نہاد سرپرست اور معروف اکوڑہ خٹک مدرسے کی بنا پر طالبان سے تعلقات رکھنے والے سمیع الحق کو ٹی ٹی پی سے رابطے اور مذاکرات کی خاطرمیدان تیار کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ فائل فوٹو۔۔۔
وزیرِاعظم نواز شریف نے بدھ کو، افغان طالبان کے نام نہاد سرپرست اور معروف اکوڑہ خٹک مدرسے کی بنا پر طالبان سے تعلقات رکھنے والے سمیع الحق کو ٹی ٹی پی سے رابطے اور مذاکرات کی خاطرمیدان تیار کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ فائل فوٹو۔۔۔

عسکریت پسندی کے خلاف حکومت کی نام نہاد حکمتِ عملی کے خدّوخال اب ابھرتے محسوس ہورہے ہیں: سیکیورٹی حکام سے ملاقاتوں کے بعد یہ طے پاگیا کہ خواہ کچھ بھی ہو ملک کا دفاع کرنا ہے، سیاسی اتحادیوں سے ملاقاتوں کے بعد فوج بھی مذاکرات کو ترجیح دینے کا اعادہ کررہی ہے۔

اگر اس میں کافی حد تک ابہام نہیں، پھر بھی مذاکرات کے تسلسل میں کوئی حکمتِ عملی نظر نہیں آرہی۔ بہت کچھ صاف دکھائی دے رہا ہے، جیسا کہ وفاقی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات شروع کرانے کے لیے اصولی مذاکرات کار کون ہوگا۔

وزیرِاعظم نواز شریف نے بدھ کو، افغان طالبان کے نام نہاد سرپرست اور معروف اکوڑہ خٹک مدرسے کی بنا پر طالبان سے تعلقات رکھنے والے سمیع الحق کو ٹی ٹی پی سے رابطے اور مذاکرات کی خاطرمیدان تیار کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ اس کے بعد، کیا سمیع الحق کے حریف مولانا فضل الرحمان مذاکراتی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنی کوششیں کریں گے؟

اور نام نہاد معززین پر مشتمل اُس وفد کا کیا بنا، جسے وزیرِ داخلہ چوہدری نثارعلی خان ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے پہلے شمالی وزیرستان بھیجنے والے تھے؟ کیا اب وزیرِ داخلہ اور وزیراعظم ایک ہی صفحے پر مزید رہ پائیں گے؟

وزیرِ اعظم کی جانب سے سمیع الحق کو نئی ذمہ داری سونپنے کے اعلان کو گھنٹوں گذرنے کے بعد بھی وزیرِ داخلہ کی طرف سے تردید کا آنا باقی رہا۔ بہت سارے ایسے سوالات اٹھ رہے ہیں، جن کے جوابات کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ وزیرِ اعظم کی جانب سے مذاکرات کی ذمہ داری نئے شخص کو سونپنے پر بھی سوالات ہیں۔

ٹی ٹی پی کے نئے سربراہ اور ان کے نائب سے، سمیع الحق کے کچھ مراسم ہیں لیکن گذشتہ سال مئی میں ڈان اخبار کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی اور اس کی چھتری تلے کام کرنے والی دیگر تنظیموں کے بارے میں کچھ کم ہی جانتے ہیں۔

لہٰذا ایسے میں حکومت، حکمتِ عملی پر توجہ مرکوز کرنے بجائے اِدھر اُدھر اور ہر جگہ ایسے اسباب تلاش کررہی ہے جو مذاکرات کی پیشکش کے ساتھ اُسے ٹی ٹی پی تک پہنچا سکے۔

آدھا برس حکومت کرنے کے بعد بھی اگر عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی کے نہ ہونے کا امکان پریشان کُن ہے تو اس کے ساتھ یہ بھی برابر کی پریشانی ہے کہ وہ اس محاذ پر گونگوں بہروں کی طرح صرف اشارے کیے جارہی ہے۔

بہر حال، حکومت کے متعین کردہ مذاکرات کار کو ریاست کی طاقت اور آئین کی بالادستی کو نافذ کرنے کے لیے ایک معاہدے کی طرف بڑھنے میں مدد دینا ہے لیکن ایک معروف طالبان کس طرح یہ مقاصد حاصل کرنے میں مدد دے سکتا ہے؟

ایک بار پھر، دکھائی دے رہا ہے کہ حکومت مذاکراتی عمل کی کہانی، اقدامات اور اختیارات ایسے عناصر کے ہاتھوں میں سونپنے پر تیار ہے جو جدید حقوق اور آزادیوں کے ساتھ آئینی جمہوریت کے پاکستانی نقطہ نظرسے بڑھ کر، عالمی نگاہوں میں طالبان زیادہ ہے۔

انگریزی میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں