وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے افغانستان سے متعلق امریکا کی نئی پالیسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد کی اصل تشویش امریکا کے نئے منصوبے میں نئی دہلی کے کردار سے متعلق ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں پاکستان کے سفارت خانے میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کی جانب سے جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی کے اعلان کے بعد پاک امریکا دو طرفہ تعلقات ایک نیا موڑ لے چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ایک جانب امریکا کو افغانستان کے مستقبل کے بارے میں تشویش ہے تو پاکستان بھی خطے کے حوالے سے متعدد مرتبہ اپنی تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے، ہمیں عمومی طور پر بھارت سے متعلق حکمت عملی پر تشویش ہے اور خصوصی طور پر بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے بھارت کے اقدامات پر تشویش ہے‘۔

مزید پڑھیں: ’پاکستان،امریکا کےساتھ مشترکہ اہداف کیلئے مل کر کام کرنے کا خواہاں‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جب تک افغانستان مستحکم نہیں ہوجاتا، خطے میں امن کے لیے ہمیں کوششیں جاری رکھنی چاہیے‘۔

انہوں نے زور دیا کہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکا اور پاکستان کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ملک سے تمام غیر ریاستی عناصر کے ٹھکانے ختم کردیئے ہیں تاہم اس وقت بھی ملک میں انٹیلی جنس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کارروائیاں کی جارہی ہیں‘۔

خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ ’پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے حال ہی میں افغانستان کے دورے کے موقع پر پاکستان کی جانب سے بھر پور تعاون کی پیش کش کی تھی، جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور دیگر افغان عہدیداروں سے ملاقاتیں کی تھیں‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کو افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی پر تشویش ہے جہاں افغان حکومت کا عمل دخل نہیں اور یہ ملک کا 40 فیصد سے زائد حصہ ہے۔

وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے بیس کیمپوں میں کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نئی افغان پالیسی: ٹرمپ کا پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینےکاالزام

انہوں نے کہا کہ ’میں یہ یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ پاکستان تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر خطے میں امن کے قیام کے لیے اقدامات کرتا رہے گا‘۔

گذشتہ روز واشنگٹن میں یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں خطاب کے دوران خواجہ آصف نے کہا تھا کہ ’دنیا بھر میں لاکھوں افراد دہشت گردی سے متاثر ہوئے، دہشت گردی نے دنیا بھر کو بہت جانی نقصان پہنچایا، پاکستان نے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے اہم کردار ادا کیا، پاکستان میں جمہوری ادارے متحرک اور مستحکم ہورہے ہیں جبکہ پاکستان میں سیکیورٹی صورتحال کی بہتری سے معیشت بہتر ہوئی ہے۔‘

اس سے قبل وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف سے ملاقات کے بعد امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے حکومتِ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا، پاکستان میں ایک مستحکم حکومت کا خواہاں ہے۔

ریکس ٹلرسن کے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے حوالے سے یہ ریمارکس واشنگٹن میں موجود پاکستانی مبصرین کے لیے تسکین کا باعث رہے لیکن اسلام آباد میں حکومت کے مستقبل کے حوالے سے تبصرے نے کئی لوگوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی تھی۔

اس سے قبل امریکا کے دورے پر موجود وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے نیویارک میں ایشیاء سوسائٹی کے ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'اب امریکا پاکستان کو حقانی اور حافظ سعید کے حوالے سے ذمہ دار ٹھہرارہا ہے جبکہ یہ لوگ کھبی آپ کے لاڈلے تھے اور وائٹ ہاوس میں دعوتیں اڑایا کرتے تھے'۔

مزید پڑھیں: امریکا کا پاکستان میں سول حکومت کے مستقبل پر خدشات کا اظہار

اس موقع پر پروگرام کے میزبان نے خواجہ آصف سے ماضی کو بھول کر مستقبل کی جانب دیکھنے کو کہا جس پر وزیر خارجہ نے جواب دیا کہ 'ماضی کو بھولنا ممکن نہیں کیونکہ یہ ہمارے مستقبل اور حال کا ایک اہم حصہ ہے'۔

واضح رہے کہ خواجہ آصف نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب رواں برس 21 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں افغانستان کے لیے نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان پر طالبان کو مبینہ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا جسے پاکستان نے مسترد کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں