'حکومت بتائے پرویز مشرف کی واپسی کیلئے کیا اقدامات کیے گئے؟'

اپ ڈیٹ 07 مارچ 2019
سپریم کورٹ کے مطابق عدالت نے نہیں حکومت نے انہیں جانے دیا تھا — فائل فوٹو/ اے ایف پی
سپریم کورٹ کے مطابق عدالت نے نہیں حکومت نے انہیں جانے دیا تھا — فائل فوٹو/ اے ایف پی

اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف نظر ثانی درخواست پر وفاقی حکومت سے استفسار کیا ہے کہ حکومت بتائے اب تک مشرف کی واپسی کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو کیس بھی درج ہو گیا ٹرائل ہو رہا ہے، جس پر درخواست گزار توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف ملک سے باہر ہیں اور ٹرائل رکا ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: سنگین غداری کیس: پرویز مشرف کی حکم امتناع کی درخواست مسترد

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خصوصی عدالت کو فوری کارروائی کا حکم دیا گیا تھا، جس پر درخواست گزار نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ میں کوئی کارروائی نہیں ہو رہی، مشرف باہر بیٹھ کر ٹی وی انٹرویو دیتے ہیں، اس کے علاوہ وہ 3 ماہ تک اے ایف آئی سی میں بیٹھے رہے لیکن عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج ہے، جس کے ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت بنائی گئی اور عبدالمجید ڈوگر کے مقدمے میں خصوصی عدالت کا جلد از جلد ٹرائل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جبکہ پرویز مشرف کے ملک میں نہ ہونے کی وجہ سے ٹرائل رکا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومت نے ان کو بلانے کے لیے اب تک کیا کیا ہے؟ کہا گیا کہ عدالت نے انہیں باہر جانے دیا جبکہ 'عدالت نے نہیں حکومت نے انہیں جانے دیا تھا'۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ عدالت نے تو حکومت پر بات ڈالی تھی، کیا کسی ملزم کے ہاتھوں حکومت یر غمال بن جائے اور کیا کوئی ملزم نہ آئے تو عدالت بے بس ہو جاتی ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پرویز مشرف کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ہو سکتا ہے، اگر پھر بھی بیان نہیں دیتے تو سمجھا جائے گا کہ انکاری ہو گئے ہیں اور خصوصی عدالت ملزم کے ہر بیان کے آگے انکار لکھ سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کو وطن واپسی پر کسی بھی کیس میں گرفتار نہ کرنے کا حکم

عدالت نے ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل اگلی سماعت پر وفاقی حکومت کا جواب جمع کرائیں، غیر ضروری مقدمات کو زیر التوا نہیں رکھیں گے، وفاقی حکومت بتائے اب تک مشرف کی واپسی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ کوئی مجرم چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا اور قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو خوشی ہوگی کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد میں 2 ہزار کی کمی ہوئی ہے، زیر التوا مقدمات کی تعداد کم کرنے میں تمام ججز نے اپنا کردار ادا کیا، 'آج کا کام کل پر نہیں چھوڑیں گے'۔

سپریم کورٹ نے رجسٹرار خصوصی عدالت سے مقدمے میں تاخیر کی رپورٹ 15 روزمیں جمع کرانے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ اٹارنی جنرل کو ذاتی حثیت میں طلب کرتے ہوئے پرویزمشرف کی وطن واپسی کے لیے حکومتی اقدامات پر رپورٹ طلب کرلی۔

عدالت نے وفاق اور مقدمے کے تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 25 مارچ تک ملتوی کردی۔

غداری کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔

اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو پراسیکیوشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھا۔

فروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔

عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سماعت کیلئے مقرر

بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔

تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھیں اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی حکومت کے آخری ایام میں مئی 2018 میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔

بعد ازاں 11 جون 2018 کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں