خادم حسین رضوی، پیر افضل قادری کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

اپ ڈیٹ 08 مئ 2019
عدالت نے درخواسات گزار کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔ — فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت نے درخواسات گزار کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔ — فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور ہائی کورٹ نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے رہنماؤں خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کی درخواست ضمانت پر فیصلہ دلائل سننے کے بعد محفوظ کرلیا۔

لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس قاسم علی خان کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس قاسم علی خان نے ریمارکس دیے کہ ایسے اشخاص کو کیوں گدیوں پر بٹھایا ہوا ہے، انہیں کیوں نہ پاگلوں کے ہسپتال منتقل کردیا جائے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ جس پر چاہیں بغاوت کا الزام لگادیں، اور جب چاہیں کہہ دیں کہ میرا دماغ ہل گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پیر افضل قادری نے تحریک لبیک کو خیرباد کہہ دیا

بینچ میں شامل دوسرے جج جسٹس اسجد جاوید نے ریمارکس دیے کہ آج معافی نامے میں لفظ 'منسوب' لکھ دیا ہے جو الفاظ کے ساتھ ہیرا پھیری ہے۔

پیر افضل قادری کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کی قید کی وجہ سے مدرسے میں بچوں کی تعلیم کا حرج ہورہا ہے جس پر جسٹس قاسم علی خان نے ریمارکس دیے کہ یہ لوگ کیا تعلیم دیتے ہوں گے؟

عدالت نے پیر افضل قادری کا معافی نامہ مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سیدھا سادھا معافی نامہ عدالت میں جمع کروائیں یا میرٹ پر فیصلہ کرالیں۔

جسٹس قاسم علی خان نئے ریمارکس دیے کہ ایسے پیروں کو تو لٹکا دینا چاہیے، یہ تو سوسائٹی کو تباہ کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’خادم حسین ضمانت دیں، رہائی کے بعد امن و امان میں خلل نہیں ڈالیں گے‘

اس کے بعد عدالت میں خادم حسین رضوی کی درخواست ضمانت پر دلائل شروع ہوئے۔

سماعت کے دوران جسٹس قاسم علی خان نے ریمارکس دیے کہ ایسا لگتا ہے کہ انسان محرومیوں کا شکار ہو، بدقسمتی ہے کہ منبر و محراب ایسے لوگوں کے حوالے ہے۔

جسٹس قاسم علی خان نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ تقریر میں جو حدیث لکھی وہ مجھے دکھا دیں کہاں لکھی ہے؟ جس پر خادم حسین رضوی کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ دعویٰ نہیں کر رہے کہ مذکورہ بیان خادم حسین رضوی کا ہے۔

جسٹس قاسم علی خان نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ بیان نہیں ہے، تو ہم آئندہ سماعت پر عدالت میں بیان کی سی ڈی چلالیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'اگر آئین کی کسی شق کو روند دیا جائے تو کیا غداری کا کیس نہیں بنے گا؟'

پراسیکیوٹر احتشام قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خادم حسین رضوی کی تقاریر کو فرداً فرداً نہ دیکھیں، ہمارے پاس سیف سٹی کی مہیا کردہ تقریر موجود ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کہ آپ نے اس تقریر کا فرانزک کروایا ہے جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ فرانزک میں تصدیق ہوئی ہے کہ آواز خادم حسین رضوی کی ہی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے دلائل مکمل ہونے کے بعد خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو 13 مئی کو سنایا جائے گا۔

یاد رہے کہ ضمانت سے متعلق درخواستوں کی آخری سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے پولیس کو خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کے خلاف ثبوت پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال توہین مذہب کے مقدمے میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو رہا کیے جانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے خلاف تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے پُر تشدد مظاہروں کے دوران توڑ پھوڑ اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔

جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا گیا تھا، اس دوران خادم حسین رضوی کو 23 نومبر 2018 کو 30 روزہ حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا اور بعد ازاں انسداد دہشت گردی عدالت نے رواں سال جنوری میں انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

تبصرے (2) بند ہیں

نبیل خان May 08, 2019 04:40pm
جہاں تک جناب خادم حسین رضوی صاحب کی بات ہے تو وہ ایک Authentic اور مستند عالمِ دین ہیں جو پڑھے لکھے جاہل تنقید کر رہے ہیں مجھے تو ان لوگوں کی عقلوں میں فطور اور دین سے بغاوت کی صاف بد بوُ محسوس ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو صحیح سمجھ عطا فرماءے۔ موجودہ انتخابات میں تحریک لبیک نہیں لاکھوں کی تعدا د میں ووٹ بھی حاصل کءے اور اسکے نماءندے صوباءی اسمبلی میں بھی موجود ہیں۔ جو لوگ آج طاقت کے نشے میں چور ہوکر ان بوریا نشین علماء کی توہین کر رہے۔ ہیں انشاء اللہ دنیا اور آخرت میں خاک آلود ہو گے۔
یمین الاسلام زبیری May 08, 2019 06:39pm
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خادم رضوی اور افضل قادری چونکہ عالم دین ہونے کے دعوے دار ہیں عدالت کے پاس ان کو لتاڑنے کے لیے الفاظ ہی نہیں ہوتے۔ لیکن جب علم دین پٹری سے اتر جاتا ہے تو عدالت تو کیا کوئی عام آدمی بھی ان سے ایسے سوال کر سکتا ہے جن کا جواب دیتے ہوئے ان حضرات کی زبان لڑکھڑا جائے۔ اسی موقع کے لیے غالب کہہ گئے ہیں: کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے۔