کرنل (ر) انعام الرحیم نے حراست کے مقدمے میں بیان حلفی جمع کروادیا

اپ ڈیٹ 13 مئ 2020
کرنل (ر) انعام الرحیم—فائل فوٹو: رائٹرز
کرنل (ر) انعام الرحیم—فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے کرنل (ر) انعام الرحیم کی حراست کو غیر قانونی قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیل کی سماعت سے ایک روز قبل سابق فوجی افسر نے سپریم کورٹ میں بیان حلفی جمع کروادیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آفیشل سیکڑیٹ ایکٹ 1923 کے تحت حکام کسی شہری کو صرف اس وقت گرفتار کرسکتے ہیں جب وہ ممنوعہ علاقے میں موجود ہو۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بیان حلفی میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ انہیں گزشتہ برس 17 دسمبر کو کسی ممنوعہ علاقے سے نہیں بلکہ زبردستی ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا گیا۔

کرنل (ر) انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ یہ اقدام آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 12 کی خلاف ورزی ہے اور آنے والوں نہ ان کے گھر سے موبائل فون اٹھایا نہ ہی کوئی لیپ ٹاپ لے کر گئے۔

یہ بھی پڑھیں: کرنل (ر) انعام الرحیم کا کورٹ مارشل عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی ہوگا، سپریم کورٹ

خیال رہے کہ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 2 رکنی بینچ وفاقی حکومت کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل کی سماعت بدھ کو (آج) کرے گا۔

گزشتہ سماعت میں عدالت عظمیٰ نے حکومت سے اس بات کو سمجھنے میں معاونت کرنے کا کہا تھا کہ کیا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل، پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت کسی شہری پر مقدمہ چلاسکتی ہے یا کیا آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کسی شخص کو اس لیے دینے سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ وہ آرمی ایکٹ 1952 کے تحت آتا ہو۔

اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ نے آئین کی دفعہ 199 اور دفعہ 8 کی زبان میں فرق کو سمجھنے میں معاونت کے لیے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو بھی نوٹس جاری کیا تھا۔

عدالت عظمیٰ میں پیش کردہ بیان حلفی میں سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ وہ متعلقہ پولیس اسٹیشن کو چیک کر نے کے بعد تصدیق کرتے ہیں کہ فوجی حکام نے کوئی مقدمہ یا ایف آئی آر درج نہیں کروائی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: وزارت دفاع سابق کرنل انعام الرحیم کی مشروط رہائی پر رضامند

کرنل انعام الرحیم نے دعویٰ کیا کہ ان کی غیر قانونی حراست کے تمام 37 دنوں کے دوران انہیں کوئی چارج شیٹ، الزامات کی تفصیلات یا وہ وجوہات نہیں فراہم کی گئیں جس کی بنیاد پر انہی حراست میں لیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ انہیں حراست کے دوران کوئی مواد یا کوئی وارنٹ نہیں دیا گیا اور نہ ہی کوئی چارج شیٹ یا مواد لاہور ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارت دفاع کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں بھی کوئی چارج شیٹ، الزامات کی تفصیلات یا ایسا مواد موجود نہیں جس کی بنیاد پر انہیں ان کی رہائش گاہ سے اغوا کیا گیا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزارت دفاع نے 2 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران یہ بات تسلیم کی تھی کہ ریٹائرڈ کرنل ان کی حراست میں ہیں لیکن وزارت کی جانب سے یہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں کہ انہیں کس الزام کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔

سابق کرنل انعام الرحیم کا معاملہ

ایڈووکیٹ انعام الرحیم نے لاپتا افراد کی بازیابی اور فوج اور مسلح افواج کے انتظامی احکامات کے خلاف متعدد درخواستیں عدالتوں میں دائر کر رکھی تھیں۔

اس کے ساتھ وہ جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی حملے اور نیوی کے افسران سمیت دیگر افراد کی سزا کے حوالے سے ہونے والے ہائی پروفائل کورٹ مارشل کے خلاف دائر درخواست کے بھی وکیل تھے۔

انہیں 17 دسمبر کو مبینہ طور پر عسکری حکام کی جانب سے اٹھایا گیا تھا، جس کے بعد درج مقدمے کے مطابق ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو نامعلوم افراد نے عسکری 14 میں ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا تھا جو گیریژن شہر میں خاصی محفوظ آبادی سمجھتی جاتی ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ جس وقت ایڈووکیٹ انعام الرحیم سو رہے تھے نامعلوم افراد ان کی رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہوئے اور اہلِ خانہ کو دھمکیاں دیتے ہوئے انہیں اغوا کیا۔

جس کے بعد ان کے اہل خانہ، سینئر وکلا احسن الدین شیخ، بریگیڈیئر (ر) واصف خان نیازی، توفیق آصف، انور ڈار، رانا عبدالقیوم اور میجر (ر) وحید نے ان کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

20 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے وزارت دفاع اور داخلہ ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی موجودگی کے حوالے سے بیان حلفی جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔

وزارت داخلہ نے ان کی موجودگی سے انکار کیا تھا جبکہ وزارت دفاع کے ایک نمائندے نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مرزا وقاص رؤف کو بتایا تھا کہ ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) کے تحت آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا تھا۔

بعدازاں 9 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے ایڈووکیٹ کرنل (ر) انعام الرحیم کی حراست کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم وزارت دفاع نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف ڈپٹی اٹارنی جنرل راجا عابد کے ذریعے ایک انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

جس پر وفاقی حکومت نے 11 جنوری کو سابق فوجی افسر ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی رہائی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کی ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت

جس کے بعد 14 جنوری کو سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ (راولپنڈی بینچ) کی جانب سے وزارت دفاع کے ماتحت ادارے کی حراست میں موجود وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی رہائی کا دیا گیا فیصلہ معطل کردیا تھا۔

علاوہ ازیں اسی سماعت کے دوران عدالت کو اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور نے بتایا تھا کہ کرنل (ر) انعام الرحیم کے پاس جوہری ہتھیاروں، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور کچھ لوگوں کے حوالے سے معلومات تھیں۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا تھا کہ آپ کا کہنے کا مطلب ہے کہ ان کے پاس معلومات ہیں جو انہوں نے دشمن سے شئیر کیں؟ آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ کرنل انعام الرحیم ایک جاسوس ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی کرنل (ر) انعام الرحیم ایک جاسوس ہیں، ان کے خلاف ابھی تحقیقات چل رہی ہیں۔

جس کے بعد 22 جنوری کو سپریم کورٹ میں وزارت دفاع نے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے حراست میں لیے گئے سابق کرنل ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو مشروط طور پر رہا کرنے کی یقین دہانی کروادی تھی۔

علاوہ ازیں 24 جنوری کو سابق کرنل ایڈووکیٹ انعام الرحیم راولپنڈی میں اپنے گھر پہنچ گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں