برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری پر کام جاری ہے اور جون میں اس کے ابتدائی نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

23 اپریل سے اس ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع ہوئی اور ابتدائی مرحلے میں ڈیڑھ ہزار افراد کی خدمات حاصل کی گئی تھیں اور اب تحقیقی ٹیم میں شامل سائنسدان نے کہا ہے کہ اس کی قیمت اتنی کم رکھی جائے گی کہ یہ آسانی سے دنیا بھر میں دستیاب ہوسکے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے جینر انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر ایڈریان ہل نے بتایا کہ ویکسین کی وسیع پیمانے پر تقسیم اور کم لاگست کو یقینی بنایا جائے گا اور یہی اس منصوبے کا آغاز سے مرکزی خیال ہے۔

انہوں نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا 'یہ کوئی مہنگی ویکسین نہیں ہوگی، یہ ایک سنگل ڈوز ویکسین ہوگی اور ہم عالمی سپلائی اور مختلف علاقوں میں اس کی تیاری کریں گے، یہ ہمیشہ سے ہمارا منصوبہ ہے'۔

اس تجرباتی ویکسین کو چاڈ آکس 1 این کووڈ 19 کا نام دیا گیا ہے اور دنیا بھر میں کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے تیار ہونے والی نمایاں ترین ویکسینز میں سے ایک ہے۔

اس تجرباتی ویکسین کی 6 بندروں پر ہونے والی ایک چھوٹی تحقیق میں ان جانوروں کو سنگل ڈوز دیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ ان میں 14 دن کے اندر وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز بن گئیں اور ان سب میں 28 دن کے اندر حفاظتی اینٹی باڈیز بھی بن گئیں۔

جب ان بندروں کو کورونا وائرس سے متاثر کرنے کی کوشش کی گئی تو ویکسین نے پھیپھڑوں میں نقصان کی روک تھام کی اور وائرس کو اپنی نقول بنانے سے روک دیا، مگر ناک میں وہ اپنی نقول بناتا رہا۔

ایڈریان ہل کا کہنا تھا کہ جانوروں پر تجربات کے ڈیٹا بہت حوصلہ افزا ہیں اور اس سے ان کی ٹیم کا اعتماد بڑھ گیا ہے کہ انسانوں پر اس کی آزمائش کے نتائج بھی مثبت ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اب تک ٹرائل کے دوران ایک ہزار سے زائد افراد کو ویکسین کے ڈوز دیئے جاچکے ہیں جن میں سے نصف کو تجرباتی ویکسین دی گئی جبکہ باقی کنٹرول گروپ کا کام کررہے ہیں۔

جب ان سے ٹرائل میں پیشرفت کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'ہم لائیو کمنٹری نہیں کرسکتے، مگر آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اگر ٹرائل ابھی تک کام کررہا ہے اور یقیناً کررہا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں ہوا'۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے کورونا وائرس کے خلاف ایک ویکسین اس وبا کی روک تھام میں مدد دے گی مگر موثر ویکسین اور بڑے پیمانے پر اس کی تیاری ایک بڑا چیلنج ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ان کی ویکسین ستمبر تک تیار ہوجائے گی اور اس مہینے میں 10 لاکھ ڈوز استعمال کے لیے دستیاب ہوں گے۔

برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی نے اس ویکسین کا ٹرائل انسانوں پر اپریل کے تیسرے عشرے میں شروع کیا تھا اور اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جون میں معلوم ہوجائے گا کہ یہ دوا کارآمد ہوگی یا نہیں۔

اس سے قبل اپریل کے آخر میں اس ویکسین کے بندروں پر آزمائش کے نتائج سامنے آئے تھے جن میں بتایا گیا کہ ان جانوروں میں 28 دن میں کورونا وائرس کا خاتمہ ہوگیا حالانکہ انہیں بہت زیادہ مقدار میں جراثیم سے متاثر کیا گیا تھا۔

بندروں پر تجربات مارچ کے آخر میں امریکا کے سائنسدانوں نے روکی ماؤنٹین لیبارٹری میں کیے تھے۔

اس مقصد کے لیے 6 بندروں کو جینز انسٹیٹوٹ اور آکسفورڈ ویکسین گروپ کی تیار کردہ ویکسین دی گئی اور اس کے بعد اننہیں بہت زیادہ تعداد میں کورونا وائرس کی زد میں لایا گیا، جو دیگر بندروں کو اس سے پہلے بیمار کرچکی تھی۔

تحقیق میں شامل بندروں میں بیماری کا کوئی اثر نظر نہیں آیا اور 28 دن بعد بھی وہ صحت مند تھے۔

راکی ماؤنٹین لیبارٹری کے وائرس ایکولوجی یونٹ کے سربراہ ونسینٹ میونسٹر نے بتایا 'بندروں کی یہ نسل جینیاتی لحاظ سے انسانوں کے بہت قریب ہوتی ہے'۔

23 اپریل کو انسانوں پر آزمائش کے ابتدائی مرحلے کے لیے 500 رضاکاروں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جن کی عمریں 18 سے 55 سال کے درمیان ہیں۔

500 رضاکاروں پر ٹرائل مئی کے وسط تک جاری رہے گا جس میں مجموعی طور پر 510 رضاکاروں کو 5 گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔

ان میں سے ایک گروپ کو پہلی بار ویکسین کے استعمال کے بعد فالو اپ بوسٹر ڈوز بھی دیا جائے گا۔

محقق پروفیسر سارہ گلبرٹ نے بتایا کہ اس ویکسین کی تیاری کے لیے جس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جارہا ہے، وہ پہلے ہی 10 مختلف اقسام کے طریقہ علاج کے لیے استعمال ہورہی ہے، مگر کورونا وائرس کے حوالے سے مختلف ممالک کے مختلف ٹیسٹ گروپس کی ضرورت ہے تاکہ درست نتائج کو یقنی بنایا جاسکے، کیونکہ یہ انفیکشن بہت تیزی سے دنیا کے ہر کونے میں پھیل رہا ہے۔

تحقیقی ٹیم بڑے پیمانے پر ویکسین کی تیاری کے لیے اضافی فنڈنگ کی کوشش بھی کررہی ہے کیونکہ وہ 6 ماہ کے انسانی ٹرائل کے بعد وہ اس کی بڑے پیمانے پر پروڈکشن چاہتی ہے۔

اس کے پیچھے یہ خیال موجود ہے کہ یہ ویکسین انسانوں کے لیے موثر ثابت ہوگئی ہے اور خزاں میں اس کی پروڈکشن شروع ہوجائے گی، جس دوران 5 ہزار افراد پر آخری ٹرائل بھی مکمل کیا جائے گا اور طبی ورکرز ستمبر تک اس کا استعمال شروع کر سکتے ہیں۔

درحقیقت آکسفورڈ یونیورسٹی ستمبر تک اس ویکسین کے 10 لاکھ ڈوز تیار کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

اتنی کم مدت میں ویکسین کی تیاری بظاہر ناممکن لگتی ہے مگر آکسفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم درحقیقت کورونا وائرس جیسی وبا کے لیے پہلے سے تیاری کررہی تھی۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلے سے جینیاتی تدوین شدہ چیمپئنزی وائرس کو تیار کیا ہوا تھا جو اس نئے وائرس کی بنیاد ہے۔

انہیں توقع ہے کہ وہ ایسا محفوظ وائرس اس ویکسین کا حصہ بناسکیں گے جو کووڈ 19 کے خلاف مدافعتی نظام کو لڑنے کی تربیت دے سکے گا۔

چین میں 3 مختلف ویکسینز کی انسانوں پر آزمائش ہورہی ہے جن میں سے ایک ویکسین تو دوسرے مرحلے میں بھی داخل ہوچکی ہے۔

اسی طرح امریکا میں مارچ میں موڈرینا کمپنی نے اور اپریل میں ایک اور کمپنی انوویو کی ویکسین کا ٹرائل شروع ہوا۔

اسی طرح جرمنی میں بھی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش ہورہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Obaid Beg May 16, 2020 06:33am
Unfortunately, all good wishful thinking. No medicine yet. The one tested habe failed. Best remedy is natural cure. People taking kalonji or senamakki have resistance to virus, probably due to neutralizing activity in the first place. Try it out..Modern science has failed for this virus.