کووڈ 19 ہارٹ اٹیک اور فالج کا باعث بھی بن سکتا ہے، تحقیق

17 مئ 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 خون کی شریانوں کے سنگین مسائل بشمول ہارٹ فیلیئر، ہارٹ اٹیک اور خون کے لوتھڑے بننے سے فالج کا باعث بن سکتی ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

یونیورسٹی آف ورجینیا ہیلتھ سسٹم کی اس تحقیق میں انتباہ کیا گیا کہ کووڈ 19 کے علاج میں ان ادویات کو شامل کیا جانا چاہیے جو خون کی شریانوں سے جڑے امراض کے مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

اس تحقیق کا مقصد ایمرجنسی میڈیسین ڈاکٹروں کو مریضوں کے علاج کے لیے رہنمائی فراہم کرنا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں زیادہ تر توجہ پھیپھڑوں کی پیچیدگیوں پر دی جاتی ہیں مگر خون کی شریانوں سے جڑی پیچیدگیوں پر زیادہ کام نہیں ہوا جو موت یا طویل المعیاد طبی مسائل کا باعث بن سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس تحقیقی مقالے سے ہمیں توقع ہے کہ ڈاکٹروں کا علم بڑھے گا اور جان سکیں گے کہ یہ نیا وائرس کس طرح خون کی شریانوں سے جڑے نظام پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ مریضوں میں کووڈ 19 کا سامنا ہورہا ہے اور اس بیماری کے حوالے سے ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہورہا ہے کہ یہ کس طرح جسم پر اثرانداز ہوتی ہے۔

کووڈ 19 اور ہارٹ فیلیئر

ہارٹ فیلیئر کووڈ 19 کے مریضوں میں خاص طور پر تشویش کا مرکز ہے اور اس تحقیقی مقالے میں بتایا گیا کہ ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ لگ بھگ کووڈ 19 کے ایک چوتھائی یا 24 فیصد مریضوں کو ہارٹ فیلیئر کا سامنا ہوتا ہے۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ ہارٹ فیلیئر کووڈ 19 کا براہ راست نتیجہ تھا یا وائرس نے پہلے سے تشخیص نہ ہونے والے دل کی اس بیماری کو مزید بدتر کردیا۔

درحقیقت ہارٹ فیلئر کے لگ بھگ 50 فیصد مریضوں کو علم نہیں ہوتا کہ وہ ہائی بلڈ پریشر یا خون کی شریانوں سے جڑے امراض کا شکار ہیں۔

فالج اور دیگر خدشات

تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ کووڈ 19 اور جسم میں شدید ورم کا باعث بننے والے دیگر امراض سے خون کی شریانوں میں چربیلے مواد کا خطرہ بڑھتا ہے جو ہارٹ اٹیک اور فالج کا باعث بنتا ہے۔

انفلوائنزا اور چند دیگر وائرسز کو اس چربیلے مواد کے خطرے سے منسلک کیا جاتا ہے اور ایسا مرض کی تشخیص کے پہلے ہفتے میں ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

آخر میں محققین نے کووڈ 19 کے لیے ممکنہ ادویات کا ذکر بھی کیا ہے، جیسے ملیریا کی روک تھام کے لیے استعمال ہونے والی دوا ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن کا استعمال دل کے ردھم کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کے اثر کو متاثر کرسکتی ہے۔

دوسری جانب امریکا اور جاپن میں ہنگامی حالات میں استعمال کے لیے جس دوا ریمیڈیسیور کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے وہ بلڈ پریشر میں کمی اور دل کی ردھم میں غیرمعمولی تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے۔

محققین نے کہا کہ ڈاکٹروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان خطرات کو ذہن میں رکھ کر کووڈ 19 کے مریضوں کا علاج کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس نئے وائرس کے بارے میں جیسے جیسے ہمارا تجربہ بڑھ رہا ہے، ہمیں احساس ہورہا ہے کہ اس کے اثرات نظام تنفس سے آگے بھی مرتب ہوتے ہیں، ہم کووڈ 19 کے بارے میں جاننے کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور یہ بھی دیکھیں گے کس طرح اس کے خطرات کی روک تھام ممکن ہے۔

اس تحقیق کے نتائج امریکن جرنل آف ایمرجنسی میڈیسین میں شائع ہوئے۔

ویسے تو مانا جاتا ہے کہ یہ بیماری پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتی ہے مگر یہ دماغ سے لے کر پیروں تک کہیں بھی حملہ کرسکتی ہے۔

کبھی تو ایسا نظر آتا ہے کہ مریض ٹھیک طرح سے بات کررہا ہے، چل پھر رہا ہے، کھا پی رہا ہے مگر اس کے خون میں آکسیجن کی سطح اتنی کم ہوچکی ہوتی ہے کہ اگر عام فرد کو اس کا سامنا ہو تو اس کے لیے چلنا، بولنا یا کھانا کچھ بھی ممکن نہیں ہوتا بلکہ کوما یا موت کا خطرہ ہوتا ہے۔

یہ وائرس دل پر حملہ کرکے پٹھوں کو کمزور کرکے اس کے اہم ترین ردھم کو متاثر کرسکتا ہے۔

یہ گردوں کو اتنا نقصان پہنچا سکتا ہے کہ امریکا میں کچھ ہسپتالوں میں ڈائیلاسز مشینوں کی کمی ہوگئی۔

یہ اعصابی نظام میں گھس کر سونگھنے اور چکھنے کی حسوں کو تباہ کرسکتا ہے اور دماغ تک بھی رسائی حاصل کرلیتا ہے۔

ابتدائی تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 کا باعث بننے والا وائرس جلد پر اثرات مرتب کرتا ہے۔

اس کا سب سے جان لیوا پہلو جسم میں متعدد مقامات میں خون کے ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بنانا اور شریانوں کو سوجن کا شکار کردینا ہے۔

یہ چند علامات کے ساتھ بھی شروع ہوسکتا ہے یا ہوسکتا ہے کہ کوئی علامت نظر ہی نہ آئے، پھر کچھ دن بعد یہ کسی اتنباہ کے بغیر پھیپھڑوں سے ہوا کو کھینچ کر سانس لینا دشوار کردیتا ہے۔

یہ معمر، کسی بییماری سے متاثر اور موٹاپے کے شکار افراد کو زیادہ بے رحم انداز سے ہدف بناتا ہے جبکہ خواتین کے مقابلے میں مرد اس کا زیادہ شکار بنتے ہیں اور ہاں ایسی علامات بھی ہیں کہ یہ حمل کو پیچیدہ بناسکتا ہے۔

یہ کم عمر بچوں کو عموماً ہدف نہیں بناتا مگر امریکا اور یورپ میں دل کی پیچیدگی کا باعث بننے والے ایک ایسی بیماری بچوں میں نظر آئی ہے جسے کورونا وائرس سے جوڑا جارہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں