موٹروے گینگ ریپ کے خلاف ملک بھر میں احتجاج، اصلاحات کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 12 ستمبر 2020
کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرین نے نعرے لگائے—فوٹو:ڈان
کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرین نے نعرے لگائے—فوٹو:ڈان
کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرین نے نعرے لگائے—فوٹو:ڈان
کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرین نے نعرے لگائے—فوٹو:ڈان
لاہور میں مظاہرین نے سی سی پی او ی برطرفی کا مطالبہ کیا—فوٹؤ:عمران گبول
لاہور میں مظاہرین نے سی سی پی او ی برطرفی کا مطالبہ کیا—فوٹؤ:عمران گبول
نیشنل پریس کلب کے باہر عورت مارچ کے تحت مظاہرہ کیا گیا—فوٹو:عورت مارچ ٹوئٹر
نیشنل پریس کلب کے باہر عورت مارچ کے تحت مظاہرہ کیا گیا—فوٹو:عورت مارچ ٹوئٹر

پاکستان کے مختلف شہروں میں لاہور-سیالکوٹ موٹروے میں چند روز قبل پیش آنے والے گینگ ریپ واقعے کے خلاف شدید احتجاج اور حکومت سے انصاف و اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا۔

عورت مارچ کے منتظمین کی جانب سے اسلام آباد، لاہور، ملتان، پشاور اور کراچی میں احتجاج کیا گیا جہاں تشدد کے خاتمے، حقوق اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی اقدامات، کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) لاہور عمر شیخ اور دیگر عہدیداروں کا احتساب، ادارہ جاتی اصلاحات اور شفاف تحقیقات سمیت دیگر مطالبات پیش کیے گئے۔

مظاہرین نے ریپ اور مخنث افراد سے متعلق کی گئی قانون سازی پر عمل درآمد اور جنسی زیادتی کے واقعات میں ملوث افراد کو سزائیں دینے کا بھی مطالبہ کیا۔

حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ عوامی مقامات پر خواتین کو تحفظ دیا جائے، صنفی حساسیت کو نصاب میں متعارف کروایا جائے، خواتین کی صحت، تعلیم اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حکومت زیادہ فنڈ استعمال کرے۔

اسلام آباد

اسلام آباد میں مظاہرے میں شامل ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سابق رکن اظہر نسرین نے کہا کہ عورت اللہ تعالیٰ کی خوب صورت تخلیق ہے اور اسلام نے عورت کو احترام دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے ساتھ زیادتی کا یہ پہلا کیس نہیں ہے، ہم موٹروے پر پیش آنے والے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ (ڈبلیو ڈی ایف) کی صدر عصمت شاہ جہان نے کہا کہ ملک میں عورت اور بچے یہاں تک کے جانور بھی محفوظ نہیں اور گھروں میں عورت رشتہ داروں سے جبکہ دفاتر میں مرد اسٹاف سے محفوظ نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا

انہوں نے کہا کہ ہمیں وہ ریاست منظور نہیں جس میں انصاف نہ ہو اور مجرموں کا ساتھ دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر سر عام پھانسی دینی ہے تو کیا آدھے پاکستان کو چوکوں میں لٹکاؤ گے، یہاں تو ہر جگہ ریپسٹ بیٹھے ہوئے ہیں'۔

عصمت شاہین نے کہا کہ اب پاکستان کے فیصلے ہم عورتیں کریں گی، 'پاکستان کے سماج، اقدار اور قانون کو تبدیل کرو'۔

ڈبلیو ڈی ایف کی کارکن طوبیٰ سید نے کہا کہ 'جب تک ہمیں یہ کہا جائے گا کہ گھر سے باہر اکیلی مت نکلیں، اس وقت تک ریپ ہوتا رہے گا'

عوامی ورکرز پارٹی اسلام آباد کی کارکن ماریہ ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خواتین خوف میں زندگی گزار رہی ہیں اور جب وہ آزادی کی بات کرتی ہیں تو ان پر لعن طعن کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک طاقتور قانون سے بچ نکلیں گے تب تک سماج میں جنسی درندے بدستور جنم لیتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 'وزیراعظم کے گھر کے قریب سے ایک بچے کو اغوا کیا گیا اور بعد میں اس کی لاش ملی، جو حکمران اپنے پڑوسی کو انصاف نہیں دلا سکے وہ عورتوں کو کیا انصاف دلائیں گے'۔

مظاہرے میں شریک خواتین اپنے مطالبات کے حق میں مسلسل نعرے لگاتی رہیں۔

لاہور

لاہور کے لبرٹی چوک میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی اور موٹروے گینگ ریپ کیس کی متاثرہ خاتون کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے لاہور کے پولیس چیف کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا۔

کراچی

کراچی میں بھی خواتین کی جانب سے لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر پیش آنے والے واقعے پر احتجاج کیا گیا۔

کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج میں شریک مظاہرین نے 'میرا جسم، میری مرضی' کے نعرے بھی لگائے۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

تبصرے (0) بند ہیں