منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں 7 روز کی توسیع

اپ ڈیٹ 13 اکتوبر 2020
احتساب عدالت نے شہباز شریف 20 اکتوبر تک کا جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا اور نیب کو ہدایت دی کہ ایک ہفتے میں تفتیش مکمل کرلیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
احتساب عدالت نے شہباز شریف 20 اکتوبر تک کا جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا اور نیب کو ہدایت دی کہ ایک ہفتے میں تفتیش مکمل کرلیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور کی احتساب عدالت نے منی لانڈرنگ ریفرنس میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں 7 روز کی توسیع کردی۔

احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے ریفرنس پر سماعت کی جہاں نیب کی جانب سے عثمان جی راشد چیمہ اور شہباز شریف کی جانب سے امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیے۔

حمزہ شہباز کو دوران سماعت ریفرنس کی کاپیاں فراہم کی گئیں۔

شہباز شریف نے عدالت میں جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’گزشتہ سماعت پر آپ نے کھانا زمین پر دیے جانے کے خلاف حکم دیا تو کھانا زمین پر ملنا بند ہو گیا تاہم عمران خان اور شہزاد اکبر کے حکم پر مجھے ایذا پہنچایا گیا‘ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ’شہباز شریف کو گھومنے والی کرسی فراہم کی گئی ہے‘۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’یہ کہاں کا اصول، کہاں کا انصاف ہے کہ فرد کو تکلیف پہچائی جائے‘۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف کی اہلیہ، بیٹی کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ’شہباز شریف کے لیے میڈیکیٹڈ بستر اور 24 گھنٹے ڈاکٹرز موجود ہیں‘۔

عدالت میں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز نے ٹرائل میں شرکت کا فیصلہ کرتے ہوئے ایڈووکیٹ امجد پرویز کے ذریعے حاضری سے استثنی دینے کی درخواست دائر کی۔

جج جواد الحسن نے استفسار کیا کہ ’کیا ملزم کے آئے بغیر ٹرائل چل سکتا ہے، وہ ایک بار آجائیں پھر بے شک حاضر نہ ہوں‘۔

امجد پرویز کا کہنا تھا کہ ’وہ 66 سالہ خاتون ہیں چل بھی نہیں سکتیں بیمار ہیں‘۔

جج جواد الحسن نے استفسار کیا کہ رابعہ عمران کے خلاف کارروائی روکی تھی تو اس کا کیا بنا؟ اس پر ایڈووکیٹ امد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ ان کا وکالت نامہ مجھے نہیں ملا اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ رابعہ عمران، شہباز شریف کے زیر کفالت نہیں اس لیے ان سے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔

بعد ازاں عدالت نے نصرت شہباز کی حاضری سے استثنی کی درخواست پر نیب سے جواب طلب کر لیا۔

شہباز شریف کی جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے نیب پراسکیوٹر عثمان جی راشد کا کہنا تھا کہ دوران تفتیش شہباز شریف کو سوالنامہ دیا گیا مگر جواب نہیں ملا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’14 کروڑ 40 لاکھ کی رقم سے متعلق کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں، شہباز شریف نے 20 کروڑ روپے 2011 میں بحریہ ٹاؤن سے وصول کیے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز نے ملزم کے غیر ملکی قرضے ادا کیے اس پر بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف کی ضمانت میں ایک روز کی توسیع

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ شہباز شریف سے مزید تفتیش کرنی ہے اس لیے ان کا 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔

شہباز شریف کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک خریدے گئے فلیٹس کی 85 فیصد رقم بینکوں سے لی گئی، فلیٹس خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئی اور کس نے دی مکمل تفصیلات جمع کروا چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جو رقم نجی افراد، سے لی ان کو اثاثوں میں ظاہر کیا گیا ہے اور جو سوالنامہ نیب آج پیش کر رہی ہے اس کے جواب تو پہلے ہی دے چکے ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’2007 میں اپنے داماد سے تحفے میں 20 ہزار پاونڈ تحفے میں لیے اس کی رسیدیں مانگتے ہیں، یہ تمام تفصیلات فراہم کر چکے ہیں نیب والے کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔

اسی دوران شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’میں کینسر کی سرجری کروا کر ملک واپس آیا اور جب پرویز مشرف نے مجھے واپس بھجوایا تو اس وقت میں لندن گیا تو سوچا کہ زندہ رہنے کے لیے کچھ کرنا چاہیے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں ملک سے بھیک نہیں مانگنا چاہتا تھا، دال روٹی کے لیے کچھ تو کرنا تھا نا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جو بھی پراپرٹی بنائی بالکل قانون کے مطابق بنائی کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا، 1997 میں، میں نے پنجاب بینک کے صدر کو کہا کہ میرے خاندان کو ایک ڈھیلے کا بھی قرضہ نہ دیں، تینوں ادوار میں پنجاب بینک سے میرے خاندان کو کوئی قرضہ نہیں دیا گیا‘۔

احتساب عدالت کے جج نے استفسار کیا کہ ’سوال یہ ہے کہ اب نیب کو شہباز شریف کی حراست کیوں چاہیے، اگر نیب شہباز شریف سے سوال کر رہا ہے اور وہ جواب نہیں دیتے تو پھر کیا ہو گا، شہباز شریف کا حق ہے کہ وہ چپ رہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر شہباز شریف جواب نہیں دے رہے تو پھر حراست میں لے کر کیا کرنا ہے‘۔

انہوں نے استفسار کیا کہ انکوائری یا تفتیش میں منتقلی کے دوران کتنی بار شہباز شریف پیش ہوئے؟ جس پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ وہ 4 مرتبہ پیش ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف کی اہلیہ، بیٹی اور داماد کے وارنٹ گرفتاری جاری

تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ’23 اگست 2019 کو شہباز شریف نے پرائیوٹ افراد کے قرض سے متعلق انیل مسرت کا نام لیا‘۔

جج نے استفسار کیا کہ ’بنیادی معلومات آپ کو مل گئیں اور اگر مزید معلومات فراہم نہیں کرتے تو نقصان کس کا ہو گا؟‘

اس موقع پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’نیب والے سو فیصد عدالت میں غلط بیانی سے کام لے رہے ہیِں‘۔

شہباز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’نیب جس جرات سے عدالت کو گمراہ کر رہی ہے بڑے افسوس کی بات ہے‘۔

بعد ازاں احتساب عدالت نے شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کرتے ہوئے ان کا 20 اکتوبر تک کا جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔

عدالت نے نیب کو ہدایت دی کہ ایک ہفتے میں تفتیش مکمل کریں۔

شہزاد اکبر بھیس بدل کر نیب کے چکر لگاتے ہیں، مریم اورنگزیب

عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ عمران خان کے حکم پر شہباز شریف کو زمین پر کھانا اور نماز کے لیے کرسی بھی نہیں فراہم کی گئی اور ان کے کمرے اور واش رومز میں کیمرے لگائے گئے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایک روز قبل شہباز شریف نیب کی کسٹڈی میں واش روم میں لگی چیزوں کی وجہ سے زخمی ہوئے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب شہزاد اکبر کے نیب کے چکر لگانے اور عمران خان کے حکم پر ہورہا ہے‘۔

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ عمران خان ملک میں مہنگائی پر کیمرے نہیں لگاتے، شہزاد اکبر کو کیمرہ دے کر نیب بھیجنے کے بجائے آٹا چینی کی ملوں میں بھیجا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ آر ٹی ایس نظام کو بٹھا کر اس ملک پر مسلط کیے گئے کووڈ 18 کو کووڈ 19 پر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔

گوجرانوالہ میں 16 اکتوبر کو ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے جلسے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اجازت ملے نہ ملے گوجرانوالہ جلسہ گاہ بن چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شہباز شریف نے ہدایت کردی ہے، 16 اکتوبر کے جلسے کو روکنے کی حکومت کوشش کرلے مگر شہباز شریف کے حوصلے پست نہیں ہوں گے‘۔

منی لانڈرنگ ریفرنس

خیال رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کی اہلیہ، دو بیٹوں، بیٹیوں اور دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

اس ریفرنس میں مجموعی طور پر 20 لوگوں کو نامزد کیا گیا جس میں 4 منظوری دینے والے یاسر مشتاق، محمد مشتاق، شاہد رفیق اور احمد محمود بھی شامل ہیں۔

تاہم مرکزی ملزمان میں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت، ان کے بیٹے حمزہ شہباز (پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر)، سلمان شہباز (مفرور) اور ان کی بیٹیاں رابعہ عمران اور جویریہ علی ہیں۔

ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس میں سلیمان شہباز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔

اس میں کہا گیا کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں