مشال قتل کیس: مرکزی ملزم کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل

اپ ڈیٹ 19 نومبر 2020
مشال خان کو 2017 میں قتل کیا گیا تھا — فائل/فوٹو: ڈان
مشال خان کو 2017 میں قتل کیا گیا تھا — فائل/فوٹو: ڈان

پشاور ہائی کورٹ نے عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے طالب علم مشال خان کے قتل کے مرکزی ملزم کو انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا جبکہ رہائی پانے والے دیگر ملزمان کی ضمانتیں کالعدم قرار دیتے ہوئے گرفتاری کا حکم دے دیا۔

پشاور ہائی کورٹ نے مشال قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں پر محفوظ فیصلہ سنایا، اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: مشال قتل کیس: اے ٹی سی کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں 6 اپیلیں دائر

عدالت نے 29 ستمبر کو ملزمان کے وکلا، مشال اور سرکاری وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

خیال رہے کہ 13 اپریل 2017 کو عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں طالب علم مشال خان کو ہجوم نے قتل کیا تھا، جس میں مجموعی طور پر 61 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔

بعد ازاں 7 فروری 2018 کو ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 57 ملزمان کے کیس کا فیصلہ جاری کیا تھا۔

ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 31 ملزمان کو سزائیں سنائی تھیں، جن میں ایک کو سزائے موت، 5 کو عمر قید اور 25 ملزمان کو تین، تین سال قید جبکہ 26 ملزمان کو بری کیا تھا۔

ملزمان نے پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ میں فیصلے کو چیلنج کیا تھا جہاں سے تین سال سزا پانے والے 25 ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

مشال قتل کیس میں نامزد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کونسلر عارف سمیت 4 ملزمان مفرور تھے، جنہیں بعد ازاں گرفتار کیا گیا۔

پشاور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 21 مارچ 2019 کو دو ملزمان کونسلر عارف اور اسد مایار کو عمر قید کی سزا جبکہ دو ملزمان کو بری کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پشاور ہائی کورٹ: مشال قتل کیس کا فیصلہ معطل، ملزمان کو رہا کرنے کا حکم

مشال کے والد نے ملزمان کی سزاؤں میں اضافے اور رہا کیے گئے ملزمان کو سزا دینے جبکہ ملزمان نے اپنی سزاؤں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں، جن پر عدالت نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔

پشاور ہائی کورٹ نے مرکزی ملزم عمران کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا اور رہائی پانے والے 25 ملزمان کی ضمانت کو کالعدم قرار دیا اور انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے جن ملزمان کو تین سال کی سزا دی گئی تھی وہ برقرار رکھی اور تمام 25 ملزمان کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرنے کا حکم دیا، اسی طرح دیگر ملزمان کی سزا بھی برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔

عدالت کے حکم پر وہاں موجود 8 ملزمان کو گرفتار کیا گیا جبکہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔

مشال خان قتل کیس — کب کیا ہوا؟

یاد رہے کہ 23 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا تھا۔

مشال کی قتل کی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر جاری ہوئی تو پورے ملک میں غم و غصہ پیدا ہوا جس کے بعد پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے حوالے سے نئی بحث کا بھی آغاز ہوگیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ نے مشال خان کے والد کی جانب سے درخواست پر مقدمے کو مردان سے اے ٹی سی ایبٹ آباد منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

اے ٹی سی نے مقدمے کی سماعت کا آغاز ستمبر میں کیا تھا جبکہ یونیورسٹی کے طلبا اور اسٹاف کے اراکین سمیت گرفتار 57 مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی اور گرفتار ملزمان کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مشال قتل کیس کے فیصلے کے خلاف جے یوآئی (ف) کا احتجاج

مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے 50 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے اور وکلا کی جانب سے ویڈیو ریکارڈ بھی پیش کیا گیا جس میں گرفتار ملزمان کو مشال خان پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔

مشال خان کے والد قیوم خان، ان کے دوست اور اساتذہ نے بھی اے ٹی سی کے سامنے اپنے بیانات ریکارڈ کروائے تھے۔

یاد رہے کہ مشال خان قتل کیس کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔

اے ٹی سی نے پانچ ماہ اور 10 دن کی سماعت کے بعد مقدمے کی کارروائی مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

خیال رہے کہ 7 فروری کو ایبٹ آباد کی اے ٹی سی عدالت نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک مجرم کو سزائے موت، 5 مجرموں کو 25 سال قید اور 25 مجرموں کو 3 سال قید جبکہ 26 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

مشال خان کے اہلخانہ نے اے ٹی سی کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور 13 فروری کو مشال خان کے بھائی ایمل خان نے اپنی وکلا ٹیم سے مشاورت کے بعد کہا تھا کہ وہ ایبٹ آباد کی اے ٹی سی کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

مشال خان کے بھائی ایمل خان نے 14 فروری کو مشال خان قتل کیس میں اے ٹی سی ہری پور کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

خیبرپختونخوا حکومت نے مشال خان قتل کیس میں ایبٹ آباد کی اے ٹی سی سے 26 افراد کی بریت کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

مشال خان کے والد نے 24 فروری کو اپنے بیٹے کے قتل کیس میں اے ٹی سی کے فیصلے کے خلاف 6 اپیلیں پشاور ہائی کورٹ میں دائر کردی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں