کے پی بیوروکریسی میں شامل ہونے پر نیب کی فضل الرحمٰن کے بھائی سے تفتیش

اپ ڈیٹ 27 جنوری 2021
نیب کی ایک ٹیم نے انکوائری کے سلسلے میں ضیاالرحمٰن سے تقریباً دو گھنٹے تک سوال و جواب کیا، رپورٹ - فائل فوٹو:ڈیلی ٹائمز
نیب کی ایک ٹیم نے انکوائری کے سلسلے میں ضیاالرحمٰن سے تقریباً دو گھنٹے تک سوال و جواب کیا، رپورٹ - فائل فوٹو:ڈیلی ٹائمز

پشاور: صوبائی مینجمنٹ سروس (پی ایم ایس) کے حاضر سروس افسر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے چھوٹے بھائی ضیا الرحمن تقریباً ایک دہائی قبل صوبائی بیوروکریسی میں شامل کیے جانے کی تحقیقات کے سلسلے میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے سامنے پیش ہوئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیب نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ضیا الرحمٰن جو افغان کمشنریٹ کے سابق کمشنر رہ چکے ہیں، نے جے یو آئی کے وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کی سربراہی میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی اس وقت کی حکومت کے دوران مجوزہ قوانین کے خلاف 2007 میں پی ایم ایس کیڈر میں غیر قانونی طور پر شمولیت اختیار کی تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ نیب کی ایک ٹیم نے انکوائری کے سلسلے میں ضیاالرحمٰن سے تقریباً دو گھنٹے تک سوالات کیے اور انہیں ایک سوال نامہ تھما دیا۔

مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن کے داماد ’غیر قانونی‘ اثاثوں سے متعلق انکوائری میں نیب طلب

ان کا کہنا تھا کہ نیب نے اسٹیبلشمنٹ ڈپارٹمنٹ سے ضیا الرحمٰن کے پی ایم ایس کیڈر میں شمولیت کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کرنے کو بھی کہا تھا۔

بعد ازاں ضیاالرحمٰن صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے نیب کو تمام متعلقہ دستاویزات فراہم کردی ہیں۔

خیال رہے کہ کیس میں سابق صوبائی چیف سیکریٹری صاحبزادہ ریاض نور، سابق سیکریٹری (اسٹیبلشمنٹ) صاحب جان اور صوبائی گورنر کے سابق سیکریٹری احمد حنیف اورکزئی کو نیب میں 28 جنوری کو طلب کر رکھا ہے۔

خیبر پختونخوا نیب پہلے ہی ضیا الرحمٰن کے اثاثوں سمیت مختلف امور پر غور کر رہا ہے۔

ضیاالرحمٰن خیبرپختونخوا صوبائی مینیجمنٹ سروس کے 19 گریڈ کے افسر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن کے ایک اور ساتھی کے خلاف نیب ریفرنس دائر

خیال رہے کہ 2007 میں اس وقت کے صوبائی گورنر لیفٹیننٹ (ر) جنرل علی محمد جان اورکزئی نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کی طرف سے انہیں بھجوائی گئی سمری کو منظور کیا تھا جس میں سیکشن آفیسر کی حیثیت سے ضیا الرحمٰن کو کے پی کے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن 23 کے تحت سیکشن آفیسر شامل کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔

پی ایم ایس کیڈر میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ کے سابق ملازم ضیا الرحمٰن کی شمولیت پر بہت لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا تھا کیونکہ پی ایم ایس قواعد 2007 متعارف ہونے کے بعد صوبائی سول سروس میں وفاقی حکومت کے ملازم کی شمولیت ممکن نہیں تھی۔

اس قانون کے تحت صوبائی سول سروس کے اس وقت کے سیکریٹریٹ اور ایگزیکٹو گروپس کو ختم کردیا گیا تھا۔

ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ محکمہ اسٹیبلشمنٹ نے ضیا الرحمٰن کی اس بنیاد پر کی شمولیت مخالفت کی ہے کہ پی ایم ایس رولز 2007 میں 17 گریڈ میں خالی آسامیوں کو صوبائی پبلک سروس کمیشن کی طرف سے نئی بھرتیوں، ترقیوں اور پوسٹ گریجویشن ڈگری اور کم از کم پانچ سال کی خدمت کے ساتھ سروس ملازمین کے تقرر کے ذریعے بھرا جاتا ہے۔

محکمے نے اسرار کیا تھا کہ خدمات کے نئے اصولوں میں کسی بھی وفاقی حکومت کے ملازم کو شامل کرنے کا نہیں کہا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں