معاملہ ختم کرنے کیلئے وکلا خود حملہ کرنے والوں کے نام دیں، اسلام آباد ہائی کورٹ

18 فروری 2021
اسلام آباد ہائی کورٹ میں 32 وکلا کے خلاف 5 بینچ توہین عدالت کیس کی سماعت کر رہے ہیں—فائل/فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ میں 32 وکلا کے خلاف 5 بینچ توہین عدالت کیس کی سماعت کر رہے ہیں—فائل/فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملہ اور توہین عدالت کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ معاملہ ختم کرنا ہے تو وکلا خود ان وکیلوں کے نام دیں جنہوں نے حملہ کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکلا کے خلاف توہین عدالت کی الگ الگ سماعت ہوئی جبکہ انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر حراست وکلا کو جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے پر پیش کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: 'غیر قانونی چیمبرز' مسمار کرنے پر وکلا کا احتجاج، ہائی کورٹ پر دھاوا

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے وکلا کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی جہاں وکلا نے کچہری آپریشن کی تفتیش کے لیے بھی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) بنانے کا مطالبہ کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر حسیب چوہدری عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہمیں تذلیل کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ایسا تو کبھی مارشل لا دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔

وکلا نے عدالت سے شکوہ کیا کہ ہمیں عدالت آتے ہوئے باہر گیٹ پر گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ وکلا تنظیمیں خود ذمہ داروں کا تعین کرتیں تو باقی وکلا کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ سارا معاملہ کالا کوٹ پہننے والے تمام وکلا اور ہم ججوں کے لیے المیہ ہے، معاملہ ختم کرنا ہے تو آپ وکلا خود ان وکیلوں کے نام دیں جنہوں نے حملہ کیا تھا۔

جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ جنہوں نے توڑ پھوڑ کی براہ مہربانی ان 5، 7وکلا کے نام ہمیں دے دیں، جتنا میرا علم ہے چند سی سی ٹی وی کیمرے اس دن فعال نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں کو واپس معمول پر جلدی لانا ہے تو خود ان تمام لوگوں کے نام دیں، جس پر وکلا نے کہا کہ نہ تصدیق شدہ ایف آئی آر کی کاپیاں فراہم کی گئیں اور نہ ہی ضمانت کا حق ملا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ کرنے والے وکلا کے خلاف مقدمہ درج

جسٹس عامر فاروق نے وکلا سے کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے جبکہ وکلا نے کہا کہ پولیس صرف اِس ادارے کی انا کی تسکین کے لیے گرفتاریاں کر رہی ہے تاہم جسٹس عامر فاروق نے جواب دیا کہ کسی کی کوئی انا نہیں ہے۔

وکلا نے کہا کہ پولیس اس عدالت کا نام لے کر گھروں پر چھاپے مار رہی ہے۔

بعد ازاں جسٹس عامر فاروق نے وکلا کی درخواست پر توہین عدالت کیس میں 26 وکلا کو جواب کے لیے تین ہفتوں کی مہلت دے دی۔

خیال رہے کہ32 وکلا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 مختلف بنچز میں توہین عدالت کی کارروائی جاری ہے۔

جسٹس فیاض احمد جندران نے دو وکلا کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی جہاں کلثوم رفیق اور کامران یوسف ایڈووکیٹ نے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت مانگ لی۔

وکلا نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ کچھ وقت دیا جائے، جواب جمع کرائیں گے، شاید مسئلہ حل بھی ہو جائے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے توہین عدالت کیس میں خالد محمود ایڈووکیٹ کو نوٹس جاری کر دیا جبکہ منور اقبال دگل ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ جس خالد محمود کو نوٹس جاری ہوا وہ پیمرا کا ملازم ہے اور ان کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وکیل نے کہا کہ پولیس نے نام ایک جیسے ہونے کی وجہ سے غلط خالد محمود کو گرفتار کر کے جیل بھجوایا، عدالت واضح کرے کہ پہلے غلط نوٹس جاری ہوا اور اب درست شخص کو نوٹس جاری کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: مجھے ساڑھے تین گھنٹوں تک یرغمال رکھا گیا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

عدالت نے جواب دیا کہ خالد محمود ایڈووکیٹ شائستہ تبسم ایڈووکیٹ کے شوہر ہیں اور ان کی جانب سے نوٹس کی تعمیل ہی نہیں ہو ئی تاہم عدالت خالد محمود ایڈووکیٹ کے ایڈریس پر توہین عدالت کا نوٹس بھیجنے کا حکم جاری کردیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے 3 وکلا کے خلاف توہین عدالت کی سماعت کی اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے الیکشن میں سیکریٹری کے امیدوار تصدق حنیف سمیت تین وکلا شامل تھے۔

جسٹس بابر ستار نے تینوں وکلا کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر پیش نہ ہوئے تو وارنٹ گرفتاری جاری کریں گے۔

انہوں نے پوچھا کہ توہین عدالت کے مرتکب وکلا کہاں ہیں، جس پراسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سیکریٹری عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ میں ان کی جانب سے پیش ہو رہا ہوں۔

جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ آپ کے پاس پاور آف اٹارنی نہیں تو آپ کیسے پیش ہو سکتے ہیں، اس موقع پر وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ جسٹس عامر فاروق نے تین ہفتے کا وقت دیا ہے، آپ بھی جواب جمع کرانے کے لیے وقت دیں۔

دوران سماعت عدالتی حکم پر وکلا نے توہین عدالت آرڈی نینس کا متعلقہ حصہ پڑھ کر سنایا اور جوائنٹ سیکرٹری بار نے کہا کہ غیر معمولی حالات ہیں، وکلا کے نام ایف آئی آر میں ہیں اور انہیں گرفتاری کا بھی خدشہ ہے۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ہم نے قانون کو دیکھنا ہے، دو ہفتے میں جواب داخل کریں، وکلا نے شکوہ کیا کہ سی ٹی ڈی، رینجرز اور پولیس ہائی کورٹ کے گیٹ پر لگی ہوئی ہے، وکلا کو آنے میں مشکلات کا سامنا ہے، جس پر جسٹس بابرستار نے کہا کہ یہاں تو صبح سے عدالت بھری ہوئی ہے اور کورٹ روم بھی بھرا ہوا ہے۔

انسداد دہشت گردی عدالت میں سماعت

دوسری جانب انسداد دہشت گردی عدالت میں اسلام آباد ہائی کورٹ پر وکلا کے دھاوا بولنے کے مقدمے کی سماعت ہوئی جہاں سابق صدراسلام آباد ڈسٹرکٹ بار نوید ملک اور نازیہ عباسی کو جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے پر پیش کیا گیا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن نے سماعت کی۔

گرفتار وکلا نے دیگر قیدیوں کے ساتھ جیل سے عدالت لانے پر اعتراض کیا اور کہا کہ ہم وکیل ہیں، دہشت گردی کے قیدیوں کے ساتھ عدالت لایا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ کیس: وکلا کی ضمانت مسترد، 7 روزہ ریمانڈ پر جیل منتقل

عدالت نے ہدایت کی کہ پولیس آئندہ سماعت پر وکلا کو الگ گاڑی میں لائے۔

گرفتار وکیل نازیہ عباسی نے کہا کہ اگر میں واقعے میں ملوث ہوں تو ثبوت دیے جائیں، ذاتی لڑائی کی وجہ میں ہمیں گھسیٹا جا رہا ہے۔

نوید ملک ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ 25 سال سے پریکٹس کر رہا ہوں کبھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا، متعلقہ تفتیشی افسران ہمارے ساتھ کوئی تعاون نہیں کر رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ

خیال رہے کہ 7 فروری کی رات ضلعی انتطامیہ، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور مقامی پولیس نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف-8 کی ضلعی عدالتوں کے اطراف میں انسداد تجاوزات آپریشن کیا تھا۔

اس آپریشن کے دوران وکلا کے غیرقانونی طور پر تعمیر کردہ درجنوں دفاتر کو مسمار کردیا گیا تھا اور اس آپریشن کے خلاف مزاحمت پر 10 وکلا کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’بار سیاست‘ میں وکلا کی فائرنگ کی خطرناک روایت، مقدمات درج

آپریشن کے ردِ عمل پر پیر کی صبح تقریباً 400 وکلا ضلعی عدالتوں پر جمع ہوئے اور بعدازاں بغیر کسی رکاوٹ کے 100 کاروں کے قافلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچنے کے بعد وکلا نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر پر دھاوا بولا اور املاک کو نقصان پہنچایا، کھڑکیاں اور گملے توڑے گئے اور ججز کے خلاف گالم گلوچ کی گئی۔

احتجاج کرنے والے وکلا نے عملے کے ساتھ بدتمیزی کی اور چیف جسٹس بلاک میں تعینات سپرنٹنڈنٹ پولیس کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا، اس کے ساتھ انہوں نے جبری طور پر میڈیا کو احتجاج کی کوریج کرنے سے روکا اور صحافیوں کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دیگر ججز نے مظاہرین کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور انہوں نے پولیس ری انفورسمنٹ اور رینجرز کے کنٹرول سنبھالنے تک چیف جسٹس بلاک کا گھیراؤ جاری رکھا۔

بعدازاں وکلا کے منتخب نمائندوں نے ججز کے ساتھ مذاکرات کیے اور احتجاج ختم کرنے کے لیے اپنے مطالبات پیش کیے۔

ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق وکلا نے سرکاری خرچ پر مسمار کیے گئے چیمبرز کی دوبارہ تعمیر، ڈپٹی کمشنر کے تبادلے اور رات گئے کیے گئے آپریشن کے دوران گرفتار کیے گئے وکیلوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں