چینی ویکسین قومی ادارہ صحت کے پلانٹ میں پیک کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 23 مارچ 2021
اس فیصلے سے پاکستان میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ویکسین مینوفیکچرنگ کی راہیں بھی کھلیں گی—فائل فوٹو: رائٹرز
اس فیصلے سے پاکستان میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ویکسین مینوفیکچرنگ کی راہیں بھی کھلیں گی—فائل فوٹو: رائٹرز

حکومتی سطح پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی چینی ویکسین کین سائنو قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) کے فلنگ پلانٹ میں پیک کی جائے گی جس سے اس کی لاگت میں 30 فیصد کمی آئے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس فیصلے سے پاکستان میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ویکسین مینوفیکچرنگ کی راہیں بھی کھلیں گی۔

خیال رہے کہ ڈریپ نے کمپنیوں کے 40 فیصد جبکہ دکانداروں اور ہسپتالوں کے لیے 15 فیصد مارک اپ پر ویکسین کی فروخت کے 2 فارمولے منظور کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈریپ نے کووِڈ 19 ویکسین کی فروخت کیلئے طریقہ کار کا اعلان کردیا

پہلا فارمولا درآمد کی گئی تیار شدہ ویکسین سے متعلق ہے جو کہتا ہے کہ تجارتی نرخ اس کی درآمدی لاگت کے برابر اور 40 فیصد مارک اپ کے ساتھ ہوگی۔

دوسرا فارمولا بڑی مقدار میں درآمدی ویکسین کا ہے جسے مقامی سطح پر دوبارہ پیک کیا جائے گا جس کے مطابق تجارتی نرخ، درآمدی لاگت کے ساتھ پیکنگ کی لاگت اور کمپینوں کے لیے 40 فیصد مارک اپ کے برابر ہوں گے۔

مزید یہ کہ دکاندار یا ادارے قیمت کے 15 فیصد تک کمیشن حاصل کرسکیں گے۔

وفاقی کابینہ کو ارسال کردہ ایک سمری کے مطابق روسی ویکسین اسپٹنک 5 کی قیمت 8 ہزار 449 روپے فی پیک تجویز کی گئی ہے جس میں 2 انجیکشن ہوں گے جبکہ سائنو فام (ایک خوراک والی چینی ویکیسن) 4 ہزار 225 روپے کی دستیاب ہوگی۔

مزید پڑھیں: نرخ مقرر کیے بغیر نجی کمپینوں کو ویکیسن درآمد کرنے کی اجازت

تاہم یہ بات مدِ نظر رہے کہ ویکسین کو مارکیٹ میں فروخت یا تقسیم نہیں کیا جاسکتا اور اسے نجی ہسپتالوں یا اداروں میں لگوایا جاسکے گا۔

اس ضمن میں اے جی ایم فارما کے تکنیکی مشیر حسن عباس ظہیر نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کین سائنو ویکسین چین سے بھاری مقدار میں پاکستان لائی جائے گی اور آئندہ ماہ سے اسے قومی ادارہ صحت کے پلانٹ میں پیک اور بھرا جائے گا۔

ڈاکٹر حسن عباس ظہیر کا کہنا تھا کہ 'اس اقدام سے ویکسین کی لاگت میں تقریباً 30 فیصد (تقریباً 3 ہزار روپے) کی کمی آئے گی اور بعد ازاں یہ ٹیکنالوجی کی منتقلی سے پاکستان میں تیار کی جاسکے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس وجہ سے ممکن ہوا کیوں کہ کین سائنو کے کلینکل ٹرائلز پاکستان میں ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:ملک بھر میں کاروباری سرگرمیاں رات 8 بجے تک بند کرنے کا فیصلہ

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ اے جی ایم فارما نے یہ ویکسین پاکستان میں رجسٹر کروائی ہے۔

تکینیکی مشیر کا کہنا تھا کہ پاکستان ویکسین مینوفیکچرنگ کے اعتبار سے غیر محفوظ ملک تھا لیکن جلد ہی محفوظ ملک بن جائے گا کیوں کہ یہاں ویکسین کی تیاری شروع ہوجائے گی اور دوسری اقوام پر انحصار ختم ہوجائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ویکسین پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ منصوبے کے تحت تیار کی جائے گی، اس وقت بھارت کی ویکسین مینوفیکچرنگ صنعت کی مالیت 5 ارب ڈالر ہے اور پاکستان بھی کورونا وائرس کے ساتھ متعدد ویکسینز تیار کرسکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں