'غیر ذمہ دارانہ بیانات، بے بنیاد الزامات'، دفتر خارجہ کا افغانستان سے تحفظات کا اظہار

اپ ڈیٹ 17 مئ 2021
پاکستان نے اسلام آباد میں افغان سفیر کے سامنے سخت احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے، ترجمان دفتر خارجہ - فائل فوٹو:ڈان نیوز
پاکستان نے اسلام آباد میں افغان سفیر کے سامنے سخت احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے، ترجمان دفتر خارجہ - فائل فوٹو:ڈان نیوز

دفتر خارجہ نے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے خلاف افغان قیادت کے حالیہ 'غیر ذمہ دارانہ بیانات اور بے بنیاد الزامات' پر اپنے سنگین تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ایک بیان میں دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ پاکستان نے اسلام آباد میں افغان سفیر کو سخت احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا۔

بیان میں کہا گیا کہ 'پاکستان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بے بنیاد الزامات سے اعتماد میں کمی آئے گی اور دونوں برادر ممالک کے درمیان ماحول خراب ہوگا اور افغان امن عمل کو آسان بنانے میں پاکستان کی جانب سے جو تعمیری کردار ادا کیا جا رہا ہے وہ نظرانداز ہوسکتا ہے'۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ 'افغان فریقین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تمام دوطرفہ امور کو حل کرنے کے لیے افغانستان - پاکستان ایکشن پلان برائے امن و یکجہتی کی طرح دستیاب فورمز کو مؤثر انداز میں استعمال کریں'۔

مزید پڑھیں: آرمی چیف کا دورہ کابل، اشرف غنی سے ملاقات، افغان امن عمل کی حمایت کا اعادہ

دفتر خارجہ کا یہ بیان افغان صدر اشرف غنی کے ایک جرمن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے دعوے کہ پاکستان نے 'طالبان کے لیے ایک منظم نظام کی حمایت' کی ہے، کے بعد سامنے آیا۔

اشرف غنی نے کہا تھا کہ 'طالبان کو وہاں سے سامان ملتا ہے، ان کی مالی اعانت ہوتی ہے اور وہاں سے بھرتی بھی ہوتی ہے'۔

افغان صدر نے جرمن میگزین کو بتایا کہ 'طالبان کی فیصلہ سازی کرنے والی مختلف تنظیموں کے نام کوئٹہ شوریٰ، میرام شاہ شورہ اور پشاور شوریٰ ہیں، یہ پاکستانی شہروں کے نام پر رکھے گئے ہیں جہاں وہ واقع ہیں، ان کے ریاست کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں'۔

جب سوال کیا گیا کہ وہ اب بھی کسی امن عمل پر یقین رکھتے ہیں تو اشرف غنی نے کہا کہ 'بنیادی طور پر امن کا فیصلہ علاقائی طور پر کیا جائے گا اور مجھے یقین ہے کہ ہم اس پر دوبارہ غور کرنے کے دہانے پر ہیں مگر سب سے پہلے اور سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان کو اس میں شامل کیا جائے، اب امریکا صرف معمولی کردار ادا کرتا ہے، اب امن یا دشمنی کا سوال پاکستان کے ہاتھ میں ہے'۔

انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ طالبان کی جانب سے امارت کی یا آمریت کی بحالی خطے اور خصوصاً پاکستان میں کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان نے جنگ بندی سے قبل کابل کے قریب ایک ضلع کا مکمل کنٹرول حاصل کرلیا

ان کا کہنا تھا کہ 'انہوں نے کہا تھا کہ فوج میں چند نچلے درجے میں مختلف رائے پائی جاتی ہے، یہ بنیادی طور پر سیاسی خواہش کا معاملہ ہے'۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ یورپ امن عمل میں کیا کردار ادا کرسکتا ہے، تو انہوں نے اپنے جواب میں کہا کہ 'وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں، پاکستان ایک ریاست ہے اور اس ریاست کو اب ایک اہم فیصلہ کرنا ہوگا، جرمنی کے واضح پیغامات اور مراعات سے مدد ملے گی اور اس کے برعکس اگر فیصلہ مختلف ہو تو پابندیاں متعارف کرانی چاہیئیں، بطور یورپین آپ کو خود کو مبصرین کی حیثیت سے نہیں دیکھنا چاہیے، آپ ان کا براہ راست حصہ ہیں'۔

یورپی ممالک کے امن عمل میں کردار کے حوالے سے سوال کے جواب میں افغان صدر نے کہا کہ 'وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں، پاکستان ایک ریاست ہے، اس ریاست کو اب ایک اہم فیصلہ کرنا ہے، جرمنی کے واضح پیغامات اور مراعات اس میں مدد فراہم کریں گے اور اگر فیصلہ مختلف ہو تو انہیں پابندیاں متعارف کرانی چاہئیں،۔ یوروپی ہونے کے ناطے آپ کو خود کو مبصرین کی حیثیت سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ آپ ان کا براہ راست حصہ ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں