ترک صدر کی اماراتی ولی عہد سے ٹیلی فونک گفتگو، تعلقات میں بہتری کی امید

اپ ڈیٹ 01 ستمبر 2021
انقرہ اور ابوظبی سالوں سے مشرق وسطیٰ میں حریف گروپوں کی حمایت کرتے رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی / رائٹرز
انقرہ اور ابوظبی سالوں سے مشرق وسطیٰ میں حریف گروپوں کی حمایت کرتے رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی / رائٹرز

ترک صدر رجب طیب اردوان کی اور متحدہ عرب امارات کے ڈی فیکٹو حکمراں اور ابوظبی کے ولی عہد محمد بن زاید النہیان کے درمیان غیر معمولی ٹیلی فونک گفتگو ہوئی۔

یہ علاقائی حریفوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی کوششوں کا نیا اشارہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک دہائی قبل 'عرب بغاوت' کے بعد سے ترکی اور متحدہ عرب امارات خطے میں اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں، یہ ایک ایسی دشمنی تھی جس میں انہیں لیبیا کی خانہ جنگی میں مختلف فریقین کی حمایت کرتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ ان کے درمیان تنازعات مشرقی بحیرہ روم سے خلیج تک پھیل گئے تھے۔

رجب طیب اردوان نے گزشتہ سال کہا تھا کہ اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے بعد ترکی، خلیجی ممالک سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ترک صدر اور سعودی فرمانروا کی ٹیلی فونک گفتگو، تعلقات کے فروغ پر اتفاق

اماراتی ولی عہد سے ٹیلی فونک گفتگو کے حوالے سے ترک صدر کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'رہنماؤں کے درمیان دونوں ممالک کے تعلقات اور علاقائی مسائل کے حوالے سے گفتگو ہوئی'۔

یہ ٹیلی فونک گفتگو رجب طیب اردوان اور متحدہ عرب امارات کے سینئر عہدیدار کے درمیان ملاقات کے دو ہفتے بعد سامنے آئی ہے اور کہا گیا کہ دونوں ممالک نے تعلقات بہتر بنانے کی طرف پیش قدمی کی ہے جس کے نتیجے میں ترکی میں بڑے پیمانے پر متحدہ عرب امارات کی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے۔

سینئر ترک عہدیدار نے حالیہ بات چیت سے متعلق کہا کہ 'یہ ہر کسی کے مفاد میں ہے کہ تنازع پر مبنی پالیسی کے بجائے معاہدے پر مبنی پالیسی اختیار کی جائے، کیونکہ تنازع پر مبنی پالیسی کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جبکہ یہ اہم پیشرفت ہے'۔

انقرہ اور ابوظبی سالوں سے مشرق وسطیٰ میں حریف گروپوں کی حمایت کرتے رہے ہیں، ترکی اسلامی تحاریک خاص طور پر اخوان المسلمون کی حمایت کرتا ہے جس نے عرب اسپرنگ (بغاوت) میں حصہ لیا تھا تاکہ خطے میں خود مختاروں کا تختہ الٹ سکے، امیر خلیجی ممالک کے رہنماؤں کو یہ پریشانی درپیش تھی کہ یہ بدامنی ان کے ممالک میں نہ پہنچے۔

یہ بھی پڑھیں: خاشقجی قتل کیس: ترکی میں 20 سعودی شہریوں پر فرد جرم عائد

یو اے ای کے سرکاری خبر رساں ادارے 'وام' کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے ملاقات میں ان امکانات پر غور کیا گیا کہ کیسے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایسے آگے بڑھایا جائے جس سے ان کے مشترکہ مفادات حاصل ہوتے ہوں۔

گزشتہ سال ترکی نے یو اے ای پر لیبیا اور یمن میں مداخلت کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں افراتفری پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا جبکہ یو اے ای اور دیگر متعدد ممالک نے ترکی کی فوجی کارروائیوں پر تنقید کی تھی۔

ترکی نے معیشت پر اثرات ڈالنے والے مسائل پر قابو پانے کے لیے رواں سال متحدہ عرب امارات کے مرکزی علاقائی اتحادی مصر اور سعودی عرب سے بھی تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔

ترکی اور سعودی عرب کے پہلے سے تناؤ کا شکار تعلقات سال 2018 میں استنبول میں موجود سعودی قونصل خانے میں سعودی ایجنٹس کی جانب سے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد مزید کشیدہ ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: ترکی نے سعودی عرب، یو اے ای کے سرکاری خبر رساں ویب سائٹس پر پابندی لگادی

ترکی اور مصر کے تعلقات اس وقت سے کشیدہ ہیں جب مصر میں فوج نے جمہوری طور پر منتخب اخوان المسلمون کے محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور رجب طیب اردوان، جن کی حکمراں جماعت اے کے پارٹی جس کی جڑیں اسلامی سیاست سے جُڑی ہیں، محمد مرسی کے بڑے حمایتی تھے۔

منگل کو دونوں ممالک کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ ہفتے دوبارہ بات چیت کریں گے۔

ترک عہدیدار کا کہنا تھا کہ عرصہ دراز سے جاری مسائل کو کم وقت میں حل کرنے کی اُمید رکھنا غیر حقیقی ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ 'ان مسائل کو حل کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے، معاملات مزید خراب نہیں ہوں گے بلکہ مختصر اور درمیانے عرصے میں تعلقات میں بہتری آئے گی'۔

تبصرے (0) بند ہیں