سپریم کورٹ کی ایف بی آر کو ٹیکس دہندگان سے منصفانہ طریقے سے پیش آنے کی ہدایت

20 جنوری 2022
سپریم کورٹ نے کہا کہ عدلیہ کے وقت کو جائز تنازعات کو حل کرنے میں بہتر طور پر گزارنا چاہیے—فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ نے کہا کہ عدلیہ کے وقت کو جائز تنازعات کو حل کرنے میں بہتر طور پر گزارنا چاہیے—فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) سے کہا ہے کہ ٹیکس دہندگان کے ساتھ منصفانہ طریقے سے پیش آئے اور قانون کی پاسداری کرے۔

سپریم کورٹ نے یہ ہدایت ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف کی جانب سے دائر کی گئی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے تحریر کردہ فیصلے میں کہا کہ اگر قانون کے تحت ٹیکس دہندگان کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو محکمہ ٹیکس کو اسے روکنا نہیں چاہیے تاکہ تعین کنندگان اور محکمے کا اپنا وقت اور وسائل بے جا ضائع نہ ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: غیر ملکی آمدنی کے اسٹیٹمنٹس پر سندھ ہائیکورٹ کا حکم امتناع معطل

انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ فضول قانونی چارہ جوئی سے ٹربیونل، ہائی کورٹ اور عدالت عظمیٰ کا وقت ضائع ہوتا ہے اس لیے اس وقت کو جائز تنازعات کو حل کرنے میں بہتر طور پر گزارنا چاہیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی جانب سے یہ ریمارکس کمشنر ان لینڈ ریونیو (سی آئی آر) کراچی کی جانب سے 5 نومبر 2020 کے سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) کے حکم کے خلاف دائر کی گئی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے دیے گئے۔

فیصلے نے یاد دلایا گیا کہ کس طرح سماعت کی آخری تاریخ پر سپریم کورٹ نے سی آئی آر کو میسرز پیکجز لمیٹڈ کے خلاف جاری شوکاز نوٹس پیش کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے ذریعے پوری کارروائی دوبارہ شروع کی گئی تھی اور 23 مئی 2011 کا شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انکم ٹیکس آرڈیننس (ITO) 1979 کے سال 98-1997 کے سیکشن 66 کے ساتھ سیکشن 66-A کے تحت جاری کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:پارلیمنٹ، عدالتی فیصلے کو ختم نہیں کرسکتی، سپریم کورٹ

ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے انکم ٹیکس ریفرنس میں سندھ ہائی کورٹ کے غور کے لیے پیش کردہ دو سوالات یہ تھے کہ کیا کیس کے حقائق اور حالات کے تحت متعلقہ ٹربیونل کے لیے منسوخ شدہ آئی ٹی او 1979 کی دفعہ 66-اے کے تحت اس حکم کو برقرار رکھنا درست تھا جس میں وقت کی مدت طے کرنے سے روکا گیا تھا اور کیا کیس کے حقائق اور صورتحال کے تحت ٹریبونل کے لیے متعلقہ کیس قانون کے تناظر میں ڈپارٹمنٹ کے خلاف اپیل پر فیصلہ کرنا جائز تھا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ایس ایچ سی کے سامنے محکمے نے سیکشن 66 پر انحصار نہیں کیا تھا بلکہ آئی ٹی او کے سیکشن 66-A پر انحصار کیا تھا جس کے تحت ڈپٹی کمشنر کے جاری کردہ حکم کی تاریخ سے انکم ٹیکس کے ایڈیشنل کمشنر کی جانب سے صرف چار سال کی مدت کے اندر نوٹس جاری کیا جا سکتا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ چنانچہ ڈپٹی کمشنر کی جانب سے آرڈر جاری کرنے کی تاریخ کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ حکم نامہ 16 مارچ 1998 کو جاری کیا گیا تھا جب کہ ڈی سی کے حکم کے 13 سال بعد 23 مئی 2011 کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا یعنی یہ عرصہ چار سال کی مقررہ مدت سے زیادہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ, بھرتیوں کے عمل کی نگرانی میں سندھ ہائیکورٹ کی 'ناکامی' پر برہم

عدالت نے کہا کہ 'اس نوٹس کی مطابقت کو ایک جانب رکھتے ہوئے ہم نوٹ کرتے ہیں کہ یہ بھی چار سال بعد جاری کیا گیا تھا'۔

فیصلے میں کہا گیا کہ محکمہ چار سال بعد سیکشن 66-A کے تحت کارروائی شروع نہیں کر سکتا تھا، لہٰذا اپیل کرنے کی اجازت کو مسترد کر دیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ پٹیشن 20 ہزار روپے کی لاگت کے ساتھ خارج کر دی جاتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں