جو ترمیم ہوئی اس میں بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کا حق ختم نہیں کیا گیا، عدالت

اپ ڈیٹ 01 جون 2022
عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں گزشتہ حکومت کی ترمیم سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نہیں تھی — فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ
عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں گزشتہ حکومت کی ترمیم سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نہیں تھی — فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کے خلاف درخواست قابل سماعت ہونے پر مزید دلائل طلب کر لیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

درخواست میں وفاق کو وزارت قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کے سیکریٹری کے ذریعے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار داؤد غزنوی اور دہری شہریت رکھنے والے عاطف اقبال خان کی جانب سے وکیل عارف چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت عدالت نے کہا کہ جو پہلے ترمیم تھی وہ بھی یہی تھی، اب والی ترمیم میں زیادہ وضاحت دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: بیرون ملک پاکستانیوں کے پیسے فارن فنڈنگ ہیں تو پاکستان بھی اسی پر چل رہا ہے، عمران خان

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لوگ باہر ہیں وہ وہاں سکونت رکھتے ہیں، دونوں ترامیم ان کے حقوق کو ختم نہیں کر رہیں۔

درخواست گزار کے وکیل عارف چوہدری نے دلائل دیے کہ 30 سال سے یہ کام چل رہا تھا اب یہ کام ہوا ہے، یہ تو کوئی کہہ نہیں سکتا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہیں۔

عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ کتنے پاکستانی بیرون ملک ہیں؟

اس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ 9 لاکھ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ امریکا میں کیسے ووٹ ڈالے جاتے ہیں وہاں کا کوئی قانون ہوگا، وکیل نے جواب دیا کہ ابھی وہاں کا قانون مجھے معلوم نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کے استحکام کے لیے سمندر پار پاکستانی اہم کیوں ہیں؟

عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں گزشتہ حکومت کی ترمیم سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نہیں تھی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اب جو ترمیم ہوئی اس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ووٹ کا حق ختم نہیں کیا گیا۔

عدالت نے درخواست قابل سماعت ہونے پر مزید دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 جون تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ 26 مئی کو قومی اسمبلی نے الیکشن ترمیمی بل 2022 منظور کر لیا تھا جس کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) اور اوورسیز ووٹنگ سے متعلق گزشتہ حکومت کی ترامیم ختم کردی گئیں جبکہ قومی احتساب ترمیمی بل بھی منظور کرلیا گیا تھا۔

اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں پارلیمانی امور کے وزیر مرتضیٰ جاوید عباسی نے بل اسمبلی میں پیش کیا، انتخابات ایکٹ 2017 کے سیکشن 94 اور سیکشن 103 میں ترامیم کی گئی ہیں۔

انتخابی قانون میں ترامیم

  • انتخابات ایکٹ 2017 کے سیکشن 94 کے تحت الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹنگ کے لیے پائلٹ پراجیکٹ کرے تاکہ ٹیکنیکل، رازداری، سیکیورٹی اور اس طرح کی ووٹنگ کے لیے اخراجات کا تعین کیا جائے اور نتائج سے حکومت کو آگاہ کرے اور رپورٹ موصول ہونے کے بعد 15 دن کے اندر ایوان کا اجلاس بلایا جائے اور اس کو دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے۔

  • الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 103 میں کی گئی ترامیم کے تحت الیکٹرانک اور بائیومیٹرک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کا بھی ضمنی انتخابات میں پائلٹ پراجیکٹ کیا جائے۔


وزیر برائے پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں ترامیم کا بل بھی ایوان میں پیش کیا تھا جو کہ بعد ازاں منظور کرلیا گیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ میں الیکشن ایکٹ اور نیب ترمیمی بلز اتفاق رائے سے منظور

اس بل کا عنوان قومی احتساب (دوسری ترمیم) بل 2021 ہے جس کے تحت چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کا طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے۔

نیب آرڈیننس میں ترامیم

  • چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے، ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی بھی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج ملے گا۔

  • نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل 2 ماہ پہلے شروع کیا جائے گا، مشاورت کا عمل 40 روز میں مکمل ہوگا، وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں اتفاق رائے نہ ہونے پر تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائے گا اور پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام 30 روز میں فائنل کرے گی۔

  • چیئرمین نیب کی 3 سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جائے گا۔

  • وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے، مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔

  • کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا اسکیم میں بےقاعدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی۔

  • کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کر سکے گا۔

  • احتساب عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوگی اور مقدمات کے فیصلے ایک سال کے اندر کیے جائیں گے۔

  • گرفتاری سے قبل نیب شواہد کی دستیابی یقینی بنائے گا۔

  • جھوٹا ریفرنس دائر کرنے پر 5 سال تک قید کی سزا ہوگی۔


یہ بھی پڑھیں: سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ سے محروم نہیں کیا، وزیر قانون

اگلے روز سینیٹ نے بھی الیکشن ایکٹ (ترمیمی) بل 2022 اور قومی احتساب (دوسرا ترمیمی) بل 2021 کثرت رائے سے منظور کر لیے تھے۔

سینیٹ اجلاس میں انتخابات میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل اور نیب ترمیمی بل پیش کرنے کی تحریک منظور کی گئی، ایوان میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل مسلم لیگ (ن) کے مرتضیٰ جاوید عباسی جبکہ نیب ترمیمی بل پیش کرنے کی تحریک اعظم نذیر تارڑ نے پیش کی۔ اس دوران اپوزیشن ’نو، نو‘ کے نعرے لگاتی رہی۔

چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے دریافت کیا کہ بل کو کمیٹی کے سپرد کروں؟ یا ابھی منظور کرانا ہے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تاررڑ کا کہنا تھا کہ یہ وہ بل ہے جسے سینیٹ کمیٹی نے منظور کیا تھا، جس میں سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کا حق بحال ہے، ان کے ووٹ ڈالنے کے حق کو واپس یا ختم نہیں کیا گیا۔

بعد ازاں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم اس بات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کا حق ختم نہیں کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کل اور آج کی ترامیم میں بیرون ممالک رہنے والے پاکستانیوں کے ووٹ کا حق ختم نہیں کیا گیا کیونکہ انہوں نے پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے اس لیے ووٹ کا حق نہ ختم کیا گیا ہے اور نہ اس حکومت کی یہ پالیسی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں