رواں مالی سال 2021-22 کے ابتدائی 11مہینوں میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (سی اے ڈی) تیزی سے بڑھ کر 15.2 ارب ڈالر ہو گیا ہے جو پچھلے مالی سال کے اسی عرصے میں صرف ایک ارب 18 کروڑ ڈالر تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے جاری تازہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ اپریل کے 61 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے مقابلے میں دو گنا سے زیادہ ہے جبکہ مئی کا خسارہ مارچ کے ایک ارب ڈالر کے خسارے کے مقابلے میں بھی زیادہ ہے۔

پاکستانی معیشت 'سی اے ڈی' اور گرتے ہوئے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، جس کے سبب روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ نے بیرونی کھاتے کو تباہ کر دیا ہے۔

اس کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کے پاس بین الاقوامی مارکیٹ سے ڈالر حاصل کرنے کے علاوہ دوسرا آپشن نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تیل اور کھانے پینے کی اشیا کا درآمدی بل 28 ارب 14 کروڑ ڈالر تک جا پہنچا

اسٹیٹ بینک سے جاری اعداد و شمار کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں تیزی سے اضافے کی اہم وجہ درآمدی بل کا بڑھنا ہے۔

موجودہ مالی سال کے ابتدائی 11 مہینوں میں درآمدی بل 75 ارب 74 کروڑ ڈالر کا ہو گیا جو پچھلے مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 55 ارب 56 کروڑ ڈالر تھا۔

حکومت کا دنیا میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے جبکہ تیل کی طلب کورونا وائرس کے بعد تمام ممالک میں معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے بعد توانائی کی ضرورت کی وجہ سے بہت زیادہ ہے۔

دوسری جانب بہت بڑے تجارتی خسارے کی وجہ صرف ایندھن کی زیادہ قیمتیں نہیں ہیں، موجودہ مالی سال کے ابتدائی گیارہ مہینوں میں تیل کا درآمدی بل 17 ارب 92 کروڑ ڈالر رہا جو پچھلے سال کے اسی عرصے میں 9 ارب 81 کروڑ ڈالر تھا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی حکومت کے آخری 10 ماہ میں تیل کا درآمدی بل تقریباً دگنا ہوگیا

پی ایم ایل (ن) کی اتحادی حکومت نے پُرتعیش اور 32 غیرضروری مصنوعات کی درآمد پر پابندی عائدکی تھی تاکہ درآمدی بل کو کم کیا جاسکے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس فیصلے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہیں اور تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق زیادہ تجارتی خسارے کی وجہ سے ملک میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی آئی، جس کی وجہ سے موجودہ مالی سال میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 24 فیصد گراوٹ ہوئی ہے۔

حکومت کو گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے چین سے 2.3 ارب ڈالر حاصل کرنے میں کامیابی ملی لیکن میڈیا کی رپورٹس کے مطابق چین کا قرضہ زیادہ شرح سود کی وجہ سے پہلے کے مقابلے میں مہنگا ہے۔

پاکستان کا مالیاتی شعبہ پاکستان اور چین کے تعلقات کا جائزہ لے رہا ہے جبکہ چین کی جانب سے منعقدہ برکس کی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت سے اسلام آباد کو روک دیا گیا ہے جس کے اراکین برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اشیائے خورونوش کے درآمدی بل میں 52فیصد اضافے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

حالانکہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے اچھے تعلقات کا اعادہ کیا تھا تاہم مالیاتی شعبہ اس اہم علاقائی پیش رفت کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

برکس ممالک کے رہنماؤں کے علاوہ چین نے اس ایونٹ میں 13 ممالک کو دعوت دی تھی، اس اقدام کو بیجنگ کی طرف سے 5 رکن گروپ میں اضافے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

اس اجلاس کو 'برکس۔پلس' کہا جارہا ہے، جس میں الجزائر، ارجنٹائن، کمبوڈیا، مصر، ایتھوپیا، فجی، انڈونیشیا، ایران، قازقستان، ملائیشیا، سینیگال، تھائی لینڈ اور ازبکستان کو مدعو کیا گیا ہے۔

چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جبکہ تجارت بیجنگ کے حق میں ہے، موجودہ مالی سال 2022 کے جولائی تا مئی کے درمیان چین سے 15 ارب 69 کروڑ ڈالر کی درآمدات کی گئیں جو پچھلے سال کے 11 ارب 45 کروڑ ڈالر تھیں۔

پاکستان کی چین کو درآمدات میں اضافے کی شرح انتہائی کم ہے جوکہ پچھلے سال کے 1.8 ارب ڈالر کے مقابلے میں 2.5 ارب ڈالر رہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں