دہشتگردی کا مقدمہ: عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع

اپ ڈیٹ 12 ستمبر 2022
عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس میں آمد سے قبل سیکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کیے گئے— فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس میں آمد سے قبل سیکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کیے گئے— فوٹو: ڈان نیوز

خاتون مجسٹریٹ اور اعلیٰ پولیس افسران کو دھمکیاں دینے سے متعلق کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع کردی۔

پی ٹی آئی چیئرمین اپنی گاڑی میں سخت سیکیورٹی کے دوران عدالت پہنچے، عمران خان پیشی کے دوران صحافیوں کی جانب سے متعدد سوالات پوچھے جانے پر خاموش رہے، تاہم انہوں نے ایک بار پھر صحافیوں کو بتایا کہ وہ 'بہت خطرناک' ہیں۔

خیال رہے کہ عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت 21 اگست کو اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جب کہ عدالت نے یکم ستمبر کو انہیں ضمانت دیتے ہوئے 12 ستمبر تک گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی کا مقدمہ، عمران خان کی 3 روزہ حفاظتی ضمانت منظور

گزشتہ روز عمران خان نے تیسری مرتبہ اپنے خلاف دہشت گردی کے الزام کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا تھا۔

آج عمران خان کی عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی، انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن نے سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی کے مقدمے میں عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع

سماعت کے دوران وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کمرہ عدالت میں موجود ہیں، پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے کہا کہ عمران خان نے ابھی تک تفتیش جوائن نہیں کی۔

بابر اعوان نے کہا کہ آپ کو بتایا گیا ہے کہ عمران جان کا بیان تفتیشی افسر کے پاس ہے، کہاں لکھا ہوا ہے کہ تفتیش کے لیے تھانے جانا چاہیے، اگر پراسیکیوٹر نے بحث کرنی ہے تو میں تیار ہوں، پراسیکیوٹر بھی نئے تعینات ہوئے ہیں۔

پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے 3 نوٹسز جاری کیے لیکن عمران خان نے تفتیش جوائن نہیں کی، جج نے ریمارکس دیے کہ 161 ایک دفعہ پڑھ لیں جس سیکشن کا ذکر کیا گیا ہے وہ پڑھنا ضروری ہے، پراسیکیوٹر نے سیکشن 161 پڑھ کر سنایا۔

جج نے بابر اعوان سے استفسار کیا کہ کیا یہ نوٹس ملا ہے جس پر بابر اعوان نے کہا کہ سیکشن 161 گواہ کا کہتی ہے میں گواہ نہیں ہوں، سیکشن 161 میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ تھانے میں بلا کر تفتیش کریں، بیان لکھ کر دیا گیا اس کو ریکارڈ پر ہی نہیں لایا گیا، آپ نے صبح خود کہا بیان کو تفتیش کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا، یہ آپ نہیں کہہ رہے تھے، یہ قانون کہہ رہا تھا، پولیس نے ضمنی میں بیان کو کیوں نہیں لکھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد پولیس نے عمران خان سے سیکیورٹی واپس لے لی ہے، شیریں مزاری کا دعویٰ

وکیل بابر اعوان نے مؤقف اپنایا کہ مجھے عدالت لکھ کر دے تو عمران خان تھانے میں شامل تفتیش ہو جائیں گے، انہوں نے حملہ کر کے دو اپنے بندے مار دینے ہیں، میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سارے ملزم اسلام آباد میں ہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ پولیس کے سامنے ملزم کے بیان کی کیا حیثیت ہے، میں نے پیشکش کی تھی اس کمرہ عدالت میں عمران خان بیان دے دیتے ہیں، مقدمے کی دو لائنیں ہی ہیں باقی کیس تو ہائی کورٹ چلا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا گراؤنڈ ہے کہ میں نے تھانے جانا ضرور ہے، جج نے استفسار کیا کہ کیا جے آئی ٹی کے نوٹس کی بات کر رہے ہیں، جج نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ نوٹسز جو جاری کیے گئے وہ دکھا دیں۔

پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹسز وکیل بابر اعوان نے پڑھ کر سنائے، بابر اعوان نے کہا کہ دو دفعہ میں شامل تفتیش ہوا ہوں، انسپکٹر نے دو دفعہ مانا کہ بیان دیا گیا، ایک دفعہ جے آئی ٹی کو بیان دیا گیا، پہلی دفعہ پولیس آئی کہ وکلا کو تھانوں میں جانا پڑ رہا ہے، میرے مؤکل کی بھی جان کو خطرہ ہے، کیوں تھانے بلایا جارہا ہے، میں نے پیشکش کی تفتیش کرنی ہے تو کمرہ عدالت میں کرلیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی 'دھمکیوں' پر اسلام آباد پولیس کا ردِعمل، کارروائی کا عندیہ

بابر اعوان نے کہا کہ میں نے لکھ کر دیا کہ تین ملزمان سے جان کا خطرہ ہے، جج نے ریمارکس دیے کہ یہ بات آپ نے لیٹر میں بھی لکھی ہے۔

بابر اعوان کا کہنا تھا کہ دو ملزم کہتے ہیں تھانے آؤ، پولیس تفتیش کرنا چاہتی ہے یا مجھے ہراساں کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ زیبا چوہدری سے متعلق کہا گیا تمہیں نہیں چھوڑیں گے، ایکشن لیں گے جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ چھوڑ دیں، یہ معاملہ اوپر والی عدالت میں ہے۔

جج نے پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کو دو ہفتوں کے بعد کیوں تعینات کیا جاتا ہے، کیا کوئی ٹائم کا مسئلہ ہے جس پر پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے جواب دیا کہ یہ مجھے نہیں پتا، کل ہی نوٹی فکیشن ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: خاتون مجسٹریٹ، آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد کے خلاف کیس کریں گے، عمران خان

پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کر دیا، بابر اعوان نے کہا کہ میرے مؤکل کے الفاظ میں دہشت گردی ہے تو بتا دیں، جج نے ریمارکس دیے کہ وہ تو اب پراسیکیوٹر ہی بتائیں گے۔

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں کیا کبھی یوٹیوب بند ہوئی، وہ ملزم جو ابھی تک ملزم ہے، وہ ابھی تک نوکری میں ہے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم ابھی ملزم کے تفتیش جوائن کرنے کی بات کر رہے ہیں، جے آئی ٹی یا تفتیشی افسر نے ہی طے کرنا ہے کہ تفتیش کا طریقہ کون سا ہوگا، جج نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا تفتیش جسمانی طور پر جوائن کرنا لازمی ہے۔

پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ یہ تفتیشی افسر پر ہوتا ہے وہ کیسے مطمئن ہوتا ہے، عمران خان کے وکیل کو سیکورٹی کا خدشہ ہے تو وہ سرکار نے دینی ہے، جے آئی ٹی کے سربراہ اور عمران خان سیکیورٹی ٹیم کے سربراہ آپس میں طے کرلیں۔

جج نے ریمارکس دیے کہ سرکار تو دوسرے نمبر پر آتی ہے، پہلے تو اللہ ہی حفاظت کرتا ہے، آپ آج ہی دلائل مکمل کر لیں، پھر ہم تحریری حکم نامہ جاری کر دیں گے، پراسیکیوٹر اور وکیل آپس میں طے کر لیں کہاں پر شامل تفتیش ہونا ہے۔

مزید پڑھیں: نیوٹرلز سے کہتا ہوں ابھی وقت ہے اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں، عمران خان

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے سابق وزیراعظم کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی، کیس کی مزید سماعت 20 ستمبر کو دوپہر 2 بجے ہوگی۔

اس دوران جج راجا جواد عباس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان جہاں تفتیش میں شامل ہونا ہے ہوجائیں، ہم کوئی حکم یا ہدایت جاری نہیں کر رہے، کہیں بھی بیان قلمبند کروائیں۔

قبل ازیں اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں عمران خان کی عبوری درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی تھی جس کے دوران عمران خان کو طلب کرتے ہوئے 11 بجے تک وقفہ کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: دہشت گردی اور دفعہ 144 کے مقدمات میں عمران خان کی ضمانت منظور

دوران سماعت عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے سیکیورٹی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے بھی گاڑی جوڈیشل کمپلیکس بھی نہیں آنے دی گئی جس پر جج نے ہدایت کی کہ آپ عمران خان کی گاڑی جوڈیشل کمپلیکس میں لے آئیں، جج نے کہا کہ گاڑی کے ساتھ عوام بہت ہو جاتی ہے یہ خیال کیجیے گا زیادہ رش نہ ہو۔

جج نے بابر اعوان سے استفسار کیا کہ کیا عمران خان نے تفتیش جوائن کر لی ہے جس پر بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ جی ہم نے تفتیش جوائن کی ہوئی ہے، جج نے استفسار کیا کہ ہمارے اپنے پراسیکیوٹر کدھر ہیں، پہلے بھی دو پراسیکیوٹر کو ڈی نوٹیفائی کیا جاچکا ہے، آپ بہت جلدی ڈی نوٹیفائی کر دیتے ہیں۔

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہائی کورٹ نے بھی ہدایت دے رکھی ہے، جج نے استفسار کیا کہ اس مقدمے کا تفتیشی کون ہے، جج نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ جی محمد علی کیا عمران خان نے تفتیش جوائن کی ہے، جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ تین نوٹسز بھیجے گئے لیکن عمران خان شامل تفتیش نہیں ہوئے، عمران خان کا وکیل کے ذریعے جواب آیا ہے۔

جج نے استفسار کیا کہ یہ سارا کیس ہی بیان پر ہے، کیا اس کو ریکارڈ کا حصہ بنایا ہے جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ عمران خان شامل تفتیش ہی نہیں ہوئے ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا، جج نے ریمارکس دیے کہ اس سے تو آپ کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دہشتگردی کا مقدمہ: عمران خان کا ضمانت کیلئے کل عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ

جج نے استفسار کیا جے آئی ٹی کی کیا صورتحال ہے، تفتیشی افسر نے جواب دیا جے آئی ٹی تو بنی ہوئی ہے، جج نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی دیکھ لیجیے گا کہ مقدمے کے اندراج کو کتنے دن ہوگئے، جے آئی ٹی کو بھی دیکھ لیجیے گا کتنے دن بعد بنی، تاخیر سے تو نہیں بنی، کیا جے آئی ٹی کی وجہ سے 30 دنوں تک ضمانت زیر التوا رکھے گئی۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم آئے اور تفتیش کو جوائن کرے، جج نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ اب یہ آئے اور جائے یہ کدھر لکھا ہے۔

اس دوران عدالت نے بابر اعوان کو آج دلائل دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی وجہ سے دیگر کیسز زیر التوا رکھنے پڑتے ہیں، ملزم کو لے آئیں تاکہ دلائل مکمل ہو سکیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ مجھے سیکیورٹی خدشات ہیں، مجھے پولیس پر اعتماد نہیں، پہلے ہی پاکستان کے وزرائے اعظم مارے جاچکے ہیں، ابھی تک پولیس کسی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کرسکی، آپ یہاں پر کہیں، عمران خان شامل تفتیش ہوجائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس، مجسٹریٹ کو دھمکیاں دینے پر عمران خان کےخلاف مقدمہ درج، دہشت گردی کی دفعہ شامل

اس دوران عدالت نے عمران خان کو 11 بجے طلب کر لیا، جج نے ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ گیارہ بجے تک پراسیکیوٹر بھی آجائیں گے اور بابر اعوان مکمل دلائل بھی دے دیں گے، اس کے ساتھ ہی عمران خان کی عبوری درخواست ضمانت کی سماعت پر 11 بجے تک کے لیے وقفہ کردیا گیا تھا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس میں آمد سے قبل سیکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کر دیے گئے تھے۔

چور نواز شریف، دہشتگرد الطاف حسین سے میرا موازنہ نہ کرو، عمران خان

بعد ازاں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے انسداد دہشت گردی عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چور نواز شریف اور دہشت گرد الطاف حسین سے میرا موازنہ نہ کرو۔

انہوں نے کہا کہ کسی دہشت گرد پر نہیں بلکہ ایک یونیورسٹی پروفیسر پر تشدد کیا جاتا ہے، جیل سپرنٹنڈنٹ کوالیفائی کرتا ہے کہ تشدد ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس تشدد زدہ آدمی کو واپس انہی تشدد کرنے والوں کے مزید ریمانڈ پر حوالے کردیا جاتا ہے اور اس پر کوئی کہتا ہے کہ میں قانونی کارروائی کروں گا ان کے خلاف جنہوں نے اس کو تشدد کے باوجود ریمانڈ پر بھیج دیا، اگر یہ کہنا دہشت گردی ہے تو پھر آپ کسی کو بھی دہشت گرد بنا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آزاد میڈیا اور آزادیِ اظہار کے معاملے کو عوامی رابطہ مہم کا حصہ بناؤں گا، عمران خان

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کا مقدمہ کرکے ملک اور اس کے قانون کا مذاق بنادیا گیا، دنیا کے میڈیا نے اس خبر کو لگایا کہ عمران خان کے اوپر اس بات کی وجہ سے دہشت گردی کا مقدمہ بنادیا کیونکہ اس نے کسٹوڈیل ٹارچر پر قانونی کارروائی کا کہا۔

عمران خان نے کہا کہ یہ مقدمہ پاکستان اور دہشت گردی کے قانون کی توہین ہے، سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دنیا میں قابل مذمت کسٹوڈیل ٹارچر کی بات کہیں پیچھے رہ گئی ہے کہ جیل میں ڈال کر ملزم پر صرف جسمانی تشدد نہیں بلکہ جنسی تشدد کیا جائے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ دہشت گردی کا کیس ملک کے لیے باعث توہین ہے۔

نواز شریف اور الطاف حسین کے بعد عمران خان کو مائنس کیے جانے سے متعلق افواہوں کے حوالے سے سوال پر چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ نواز شریف چور سے اور الطاف حسین ایک دہشت گرد سے میرا موازنہ نہ کرو۔

کیس 'مائنس عمران' کی سازش ہے، بابر اعوان

سماعت مکمل ہونے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بابر اعوان نے آج کی کارروائی کا تفصیلی جائزہ میڈیا نمائندوں کے سامنے بیان کیا۔

بابر اعوان نے کہا کہ یہ کیس بنیادی طور پر 'مائنس عمران' کی سازش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی پلس رہیں گے، عمران خان کو مائنس کرنے کی کوشش کرنے والے مائنس ہوجائیں گے۔

عمران خان کے خلاف مقدمہ

خیال رہے کہ رواں سال 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کا بیان قابل مواخذہ ہے، مقدمہ درج کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں، رانا ثنااللہ

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں’۔

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

عمران خان نے ایڈیشنل اور سیشن جج زیبا چوہدری کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں اور ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی گریز کریں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا ہے۔

ایف آئی آر میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو مثالی سزا دی جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں