جنرل (ر) قمرجاوید باجوہ نے تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم کی مدد کی، مصطفیٰ کھوکھر

اپ ڈیٹ 31 دسمبر 2022
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سے متعلق اب تمام باتیں اور شواہد سامنے آرہے ہیں—فائل فوٹو: ٹوئٹر
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سے متعلق اب تمام باتیں اور شواہد سامنے آرہے ہیں—فائل فوٹو: ٹوئٹر

پاکستان پیپلزپارٹی کےسابق رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) کی مدد کی تھی۔

ڈان نیوز ٹی وی کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں پی پی پی کے سابق رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیسے کامیاب ہوئی اور عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے میں پی ڈی ایم کو کس کی مدد حاصل تھی، جیسے سوالات پر اہم انکشافات کیے۔

سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے میزبان نادر گرامانی کو دیے گئے انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم کی مدد کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سے متعلق اب تمام باتیں اور شواہد سامنے آرہے ہیں۔

انہوں نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں عمران خان کی جانب سے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سابق آرمی چیف کو توسیع دینے کے لیے 12 منٹ کے اندر تاریخی قانون سازی ہوئی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ قمر جاوید باجوہ خود اپنی مدت میں توسیع کے خواہاں تھے اسی لیے یہ قانون بنایا گیا تھا۔

پیپلزپارٹی کے سابق رہنما نے کہا کہ سابق آرمی چیف کو مدت میں توسیع کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا اثرو رسوخ تھا، اختلافات کے باوجود تمام سیاست دان آناً فاناً قانون پر متفق ہوگئے تھے۔

سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ اب متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) کے دھڑوں کو اکٹھا کیا جا رہا ہے، ایم کیو ایم کے اپنے رہنما کہہ رہے ہیں کہ انہیں اکٹھا کرنے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فروری 2022 میں کہا گیا ہم نیوٹرل ہیں لیکن ادارے آج بھی نیوٹرل نہیں ہے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں تحریک انصاف میں جانے کا کہا گیا تھا۔

’سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین کی حیثیت سے دباؤ تھا‘

مصطفیٰ نواز کھوکھر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین تھے اور اہم معاملات پر نوٹس بھی لیا تھا اب ان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے بطور چیئرمین انسانی حقوق کمیٹی کام سے خوش نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ بطور چیئرمین انسانی حقوق کمیٹی بہت سے معاملات کا نوٹس لیا شاید اسٹیبلشمنٹ ان چیزوں سے خوش نہ ہو میں نے حیات بلوچ قتل کیس کا نوٹس لیا اور اس وقت آئی جی ایف سی کو کمیٹی میں طلب کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے سندھ کے شاعر کے بیٹے کا رینجرز کی جانب سے اغوا کا نوٹس لیا اور پی ٹی آئی کے دور میں صحافیوں کے خلاف کیسز کا بھی نوٹس لیا تھا۔

سابق سینیٹر نے کہا کہ میرے کام سے شاید یہ تاثر گیا کہ یہ تو اپنے کام کو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ محسن داوڑ اور علی وزیر کے معاملے کا بھی نوٹس لیا تھا جبکہ میرے اوپر بہت دباو تھا، کہا جاتا تھا کہ ان چیزوں کو نہ چھیڑیں۔

مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ میں نے سچے دل سے کمیٹی کو چلایا پارٹی کی جانب سے کہا جانا چاہیے تھا کہ آپ کام جاری رکھیں۔

’استعفیٰ فروری میں دیا تھا‘

انہوں نے انٹرویو کے دوران کہا کہ ’میں نے اپنا استعفیٰ فروری میں ہی دے دیا تھا لیکن ملک میں جاری مہنگائی اور پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے باعث استعفیٰ دینے میں تاخیر کا فیصلہ کیا‘۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے نومبر میں سینیٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی قیادت میرے ’سیاسی مؤقف‘ سے خوش نہیں ہے۔

بعد ازاں انہوں نے دسمبر میں پی پی پی چھوڑنے کا بھی اعلان کیا تھا۔

’بلاول نے دباؤ میں آکر بیان واپس لیا‘

سابق سینیٹر نے کہا کہ وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں دیا گیا بیان دباؤ میں آکر واپس لیا تھا۔

خیال رہے کہ 24 اکتوبر 2022 کو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میں پاکستان کا وزیر خارجہ بن کر آج عاصمہ جہانگیر سے مل رہا ہوتا تو میرے خیال میں وہ مجھ سے پوچھتیں کہ بلاول آپ ڈینجرس اور ڈفر سے ڈیل کرکے تو وزیر خارجہ نہیں بنے؟ میں خوشی سے عاصمہ جہانگیر صاحبہ کو یقین دلاتا کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔

بعد ازاں وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے اپنا مذکورہ بیان واپس لےلیا تھا۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے مزید کہا کہ سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد کے وقت جس طرح کیمرے لگے وہ کسی عام شخص کا کام نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا طریقہ کار بھی درست نہیں تھا۔

یاد رہے کہ 2021 میں سینیٹ کی اس وقت کی اپوزیشن کے پاس 99 میں سے 57 سیٹیں تھیں لیکن اس اہم اجلاس میں 8 سینیٹرز (پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم) غیر حاضر رہے اور حتمی گنتی میں حکومت نے محض ایک ووٹ سے برتری حاصل کر لی۔

واضح رہے کہ یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ اجلاس سے غیرحاضری پر اُن کی اپنی جماعت سے تنقید کا سامنا تھا، اس اجلاس کے دوران اپوزیشن کے سینیٹرز کے غیرحاضر ہونے کے باعث حکومت نے اپوزیشن کی برتری کے باوجود اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور کروا لیا تھا۔

تاہم سینیٹ کی کارروائی کے بعد یوسف رضا گیلانی اپوزیشن لیڈر منتخب ہوگئے تھے بعد ازاں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ سینیٹ میں اپوزیشن رہنماؤں کی اکثریت ہونے کے باوجود یہ بل کیسے منظور ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں