پلوامہ حملے پر ستیہ پال کے انکشافات نے پاکستانی مؤقف کی ایک بارپھر تصدیق کردی، ترجمان دفترخارجہ

اپ ڈیٹ 16 اپريل 2023
مزید کہا گیا کہ  بھارت کو تازہ ترین انکشافات میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا چاہیے—فائل فوٹو: ٹوئٹر
مزید کہا گیا کہ بھارت کو تازہ ترین انکشافات میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا چاہیے—فائل فوٹو: ٹوئٹر

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر کے نام نہاد سابق گورنر ستیہ پال ملک کے تازہ ترین انکشافات نے ایک بار پھر فروری 2019 کے پلوامہ حملے کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کی تصدیق کی ہے۔

سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق دفترخارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ان انکشافات سے واضح ہوا ہے کہ کس طرح بھارت کی قیادت اندرونی سیاسی فوائد کے لیے عادتاً دہشت گردی کے بھوت کواستعمال کرتے ہوئے اپنے مظلوم ہونے کا شرمناک بیانیہ اورہندواتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہے۔

ترجمان نے امید ظاہرکی ہے کہ عالمی برادری تازہ ترین انکشافات اور بھارت کی خودغرضی وسیاسی مفادات پرمبنی پاکستان مخالف پروپیگنڈا مہم کا نوٹس لے گی۔

مزید کہا گیا کہ بھارت کو تازہ ترین انکشافات میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا چاہیے، وقت آگیا ہے کہ بھارت کو پلوامہ حملے کے بعد علاقائی امن کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے۔

ترجما ن دفتر خارجہ نے بتایا کہ پاکستان بھارت کے جھوٹے بیانیے کا مقابلہ اور اشتعال انگیزیوں کے باوجود ثابت قدمی سے ذمہ داری کے ساتھ کام کرے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ڈان کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے کہا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نے فروری 2019 میں پلوامہ حملے کے اہم حقائق عوام سے چھپائے تھے، مذکورہ حملے میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ایک درجن اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ستیہ پال ملک نے ’دی وائر‘ کو ایک اٹرویو میں بتایا کہ انہیں فوری طور پر احساس ہوگیا تھا کہ نریندر مودی اس حملے کو پاکستان پر الزام لگا کر اپنی حکومت اور بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کریں گے۔

یاد رہے کہ ستیہ پال ملک 2019 میں ہوئے پلوامہ حملے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370-اے کے خاتمے کے وقت مقبوضہ جموں و کشمیر کے گورنر تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ بھارتی وزیراعظم کو کشمیر کے بارے میں ’غلط معلومات‘ یا وہ ’ناواقف‘ ہیں اور انہوں نے ستیہ پال ملک سے کہا تھا کہ وزارت داخلہ کی کوتاہیوں پر بات نہ کریں کہ جس کے نتیجے میں پلوامہ حملہ ہوا۔

ستیہ پال ملک نے انکشاف کیا تھاکہ پلوامہ میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے قافلے پر حملہ بھارتی نظام بالخصوص سی آر پی ایف اور وزارت داخلہ کی ’نااہلی‘ اور ’لاپرواہی‘ کا نتیجہ تھا۔

پلوامہ حملہ

14 فروری کو مقبوضہ کشمیر میں کار بم دھماکے کے نتیجے میں 44 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد نئی دہلی نے کسی بھی طرح کی تحقیقات کیے بغیر اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا جسے اسلام آباد نے مسترد کردیا۔

بھارت نے الزام لگایا تھا کہ یہ حملہ کالعدم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کی جانب سے کروایا گیا، ساتھ ہی انہوں نے اس حملے کے ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

تاہم بغیر کسی ثبوت کے بھارت نے اس معاملے کو پاکستان سے جوڑدیا تھا اور پاکستان سے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ واپس لے لیا تھا جبکہ پاکستان سپرلیگ کی نشریات پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔

اس کے علاوہ بھارتی درآمدکنندگان نے پاکستانی سیمنٹ کی درآمد روک دی تھی جس کے نتیجے میں پاکستان کی سیمنٹ فیکٹریوں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔

بھارت میں اور مقبوضہ کشمیر کے کئی علاقوں میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمان شہریوں کے گھروں اور املاک کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں درجنوں مسلمان خاندان محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے جواب دیا تھا کہ پاکستان پر الزام لگانا ایک منٹ کی بات ہے، بھارت اپنا ملبہ پاکستان پر پھینک رہا ہے اور اب دنیا اس سے قائل نہیں ہوگی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا نے پلوامہ میں ہونے والے حملے کی مذمت کی ہے اور کرنی بھی چاہیے تھی کیونکہ اس میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔

تاہم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت سے آوازیں آرہی ہیں، جیسا کے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے کہا کہ پاکستان پر الزام لگانا ’آسان راستہ‘ ہے لیکن بھارتی انتظامیہ یہ بھی تو دیکھے کے مقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے۔

صورتحال اس وقت خراب ہوئی جب بھارتی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی، جس پر پاک فضائیہ فوری طور پر حرکت میں آئی اور بھارتی طیارے واپس چلے گئے۔

بعد ازاں، پاک فوج نے بھارت کو خبردار کیا کہ اب وہ پاکستان کے جواب کا انتظار کرے جو انہیں حیران کردے گا، ہمارا ردِعمل بہت مختلف ہوگا، اس کے لیے جگہ اور وقت کا تعین ہم خود کریں گے۔

اس کے بعد 27 فروری کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے بتایا کہ پاک فضائیہ نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے بھارتی فورسز کے 2 لڑاکا طیاروں کو مار گرایا۔

ٹوئٹ میں مزید کہا گیا کہ ایک بھارتی لڑاکا طیارہ مقبوضہ کشمیر میں گر کر تباہ ہوا جبکہ دوسرا طیارہ پاکستان کے علاقے آزاد کشمیر میں گرا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاک فوج نے ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کرلیا ہے جبکہ دیگر 2 پائلٹس کی گرفتاری کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن جاری ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں